يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ
وہاں وہ لپک لپک [١٨] کر ایک دوسرے سے جام شراب لیں گے جس میں نہ یا وہ گوئی [١٩] ہوگی اور نہ کوئی گناہ کا کام
[١٨] اہل جنت جام شراب کے لیے ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی اس لیے نہیں کریں گے کہ انہیں شراب کے ذخیرہ میں کمی واقع ہوجانے کا خطرہ ہوگا بلکہ محض خوش طبعی کے طور پر وہ یہ شغل لگائیں گے۔ [١٩] جنت میں شراب کے دور :۔ دنیا کی شراب میں کئی قباحتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً اس کا مزہ تلخ ہوتا ہے اور بو ناخوشگوار، اس کا نشہ سر کو چڑھ جاتا ہے جس سے سر چکرانے لگتا ہے اور بعض دفعہ درد بھی کرنے لگتا ہے۔ اس کا نشہ عقل پر چھا کر اس میں فتور پیدا کردیتا ہے۔ پھر اسی نشہ کی حالت میں انسان بعض دفعہ بکواس بکنے لگتا ہے بعض دفعہ کسی کی بے عزتی کر بیٹھتا ہے یا کوئی اور گناہ کا کام کر بیٹھتا ہے اور اس کا فائدہ صرف یہ ہوتا ہے کہ عارضی طور پر کچھ سرور حاصل ہوتا ہے اور دوران اس کے غم غلط ہوجاتے ہیں حالانکہ یہ بھی دراصل فتور عقل کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ جنت کی شراب میں اس کا فائدہ یعنی لذت وسرور تو ضرور حاصل ہوگا مگر وہ ہر طرح کے نقصانات سے پاک ہوگی۔