وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان لانے میں ان کی پیروی کی تو ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے اپنے عملوں سے کچھ بھی کم [١٥] نہ کریں گے ہر شخص اپنے ہی عملوں کے عوض گروی [١٦] ہے۔
[١٥] کم درجہ والی اولاد کو والدین سے ملادینا :۔ یعنی والدین نیک اور پرہیزگار تھے۔ اولاد نے اپنے والدین کی پیروی کی کوشش تو کی مگر نیکی اور پرہیزگاری میں اس درجہ تک نہ پہنچے جو والدین کا درجہ تھا تو اللہ تعالیٰ اولاد پر یہ مہربانی فرمائیں گے کہ ان کو بھی ان کے والدین کے درجہ تک پہنچا کر جنت میں ان کے والدین کے ساتھ ملا دیں گے تاکہ والدین اور اولاد جیسے دنیا میں اکٹھے رہے تھے جنت میں بھی اکٹھے رہ سکیں اور والدین اور اولاد دونوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ اس سلسلہ میں یہ نہ ہوگا کہ کچھ والدین کا کچھ درجہ کم کردیا اور کچھ اولاد کا کچھ بڑھا دیا اور دونوں کو ایک درمیانی درجہ کے مقام میں جنت میں ملا دیا بلکہ اولاد کا درجہ ہی بڑھایا جائے گا والدین کا کم نہیں کیا جائے گا۔ [١٦] ہر شخص کے اللہ کے ہاں گروی ہونے کا مفہوم :۔ یعنی ہر شخص پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتیں قرض ہیں اور اس کے بدلے انسان کا نفس اللہ تعالیٰ کے پاس بطور رہن یا مرہونہ چیز ہے۔ قرض کی ادائیگی کی صورت یہ ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے۔ اس کے احکام کی تعمیل کرے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرے۔ جس شخص نے یہ قرض ادا کردیا اس کا نفس عذاب جہنم سے آزاد ہوگیا۔ وہ کامیاب ہوگیا' اور بچ نکلا اور جس نے یہ قرض ادا نہ کیا اس کا نفس پہلے ہی اللہ کے پاس رہن رکھا ہوا ہے۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ جنت محض اللہ کے فضل سے ملے گی۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کی نیکی دوسرے کے نفس کو نہ رہا کرا سکے گی اور نہ عذاب جہنم سے بچا سکے گی۔