أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ
کیا یہ اس بات کی وصیت کرتے چلے آئے ہیں؟ بلکہ [٤٦] یہ ہیں ہی سرکش لوگ
[٤٦] سب کافروں میں قدر مشترک :۔ ان کے اس کردار کے تسلسل سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم اپنے بعد میں آنے والی قوم کو یہ وصیت کرکے مرتی رہی کہ اگر تمہارے پاس کوئی رسول آئے تو تم بھی اسے ساحر اور مجنون ہی کہنا۔ بات یوں نہیں کہ ان قوموں کے درمیان کافی بعد زمانی یا مکانی پایا جاتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسے سب کافروں میں چند باتیں قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہیں اور وہ ہیں آبائی دین سے محبت ' عصبیت ' ہٹ دھرمی، اکڑ اور شریعت کی پابندیوں سے آزادی کی خواہش۔ جو انہیں اس بات پر مجبور کردیتی ہیں کہ پیغمبروں کو ان القاب یا ان جیسے ملتے جلتے القابات سے پکار کر ان کا مذاق اڑائیں۔ اس سے ایک اور اہم بات کا پتہ چلتا ہے کہ نیکی اور بدی، عدل اور ظلم سے متعلق جو محرکات نفس انسان میں بالطبع پائے جاتے ہیں وہ ہر دور میں ایک جیسے رہے ہیں، تبدیلی صرف واقعات میں ہوئی ہے۔ مثلاً جو رقابت سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو سیدنا یوسف سے تھی وہ آج بھی بھائیوں میں ویسے ہی پائی جاتی ہے اگرچہ حالات اور واقعات مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور کے کافروں کا اپنے انبیاء سے مذاق و تمسخر اور القابات ایک ہی جیسے رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے حالات و واقعات مختلف قسم کے تھے۔