سورة الذاريات - آیت 45
فَمَا اسْتَطَاعُوا مِن قِيَامٍ وَمَا كَانُوا مُنتَصِرِينَ
ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب
پھر نہ تو ان میں میں کھڑا ہونے کی سکت رہ گئی اور نہ ہی [٣٩] وہ اپنا بچاؤ کرسکے
تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی
[٣٩] انتصر کے دو مفہوم :۔ یعنی عذاب سے دہشت کا یہ عالم تھا کہ جو بیٹھا تھا اس کو اٹھ کر کھڑا ہونے کی بھی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ کہیں جاکر عذاب سے پناہ لینا تو دور کی بات ہے۔ انتصار کا لفظ دو معنوں میں آتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر کوئی حملہ کرے تو اس سے اپنا بچاؤ کرنا اور دوسرا یہ کہ جو حملہ کرے اس سے بدلہ لے لینا۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ یہ قوم بڑے مضبوط جسم والی بڑے ڈیل ڈول والی، اپنی طاقت اور قوت پر فخر و ناز کرنے والی تھی اور ڈھینگیں مارنے والی تھی۔ پھر جب ان پر ہمارا عذاب نازل ہوا تو یہ بدلہ تو نہ لے سکی۔