وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو کچھ اس کے دل میں وسوسہ گزرتا [١٨] ہے، ہم تو اسے بھی جانتے ہیں اور اس کے گلے کی رگ سے بھی زیادہ اسکے قریب [١٩] ہیں۔
[١٨] شیطان کا انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنا :۔ چونکہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اس لئے اس کی فطرت کو سب سے زیادہ جاننے والا ہمارے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے ہم تو اس کے دل کے خیال اور اس میں پیدا ہونے والے برے خیالوں یا وساوس تک کو بھی جانتے ہیں۔ ویسے یہ وساوس کیونکر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ مسجد نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے جب میں واپس آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ (تاکہ مجھے گھر تک پہنچا آئیں) جب ہم ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے دروازہ کے قریب پہنچے تو دو انصاری مرد (اسید بن حضیر اور عمار بن بشر رضی اللہ عنہ) ملے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور آگے نکل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : ’’ذرا ٹھہر جاؤ، (یہ عورت میری بیوی ہے)‘‘ انہوں نے کہا : سبحان اللہ! یا رسول اللہ اور آپ کا یہ وضاحت فرمانا ان پر شاق گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’شیطان خون کی طرح آدمی کے بدن کی ہر رگ میں پہنچتا ہے۔ میں ڈرا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈال دے‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب بیوت ازواج النبی ) [١٩] اللہ کا رگ جان سے زیادہ نزدیک ہونا :۔ اللہ تعالیٰ کی یہ قربت اس کے علم اور اس کی قدرت کے لحاظ سے ہے نہ کہ اس کی ذات کے لحاظ سے کیونکہ اس کی ذات تو ساری کائنات سے اوپر عرش پر ہے اور انسان کی جان یا نفس یا روح کا مسکن انسان کا دل ہے۔ تو جب اللہ اپنے علم کے لحاظ سے انسان کے دل اور اس میں پیدا ہونے والے خیالات تک کو جانتا ہے تو رگ جان یا رگ گردن، جو گلے کے سامنے کی طرف ہوتی ہے وہ تو دل سے کافی دور ہے۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوا۔