رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ ۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ الْخُرُوجُ
یہ بندوں [١٢] کے لئے رزق ہے اور اس پانی سے ہم ایک مردہ زمین زندہ کردیتے ہیں (تمہارا زمین سے دوبارہ) نکلنا بھی اسی طرح [١٣] ہوگا۔
[١٢] قدرت کاملہ کے اس مظاہرہ سے ایک تو مرنے کے بعد کی زندگی کی دلیل ملتی ہے۔ دوسرے ان فصلوں کے غلہ اور ان درختوں کے پھلوں سے جو رزق حاصل ہوتا ہے وہ تمام انسانوں اور جانداروں کی زندگی کی بقا کا سبب بنتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دوسری دلیل ہے کہ کس طرح وہ اپنی تمام مخلوقات کے لئے فراہمی رزق کا انتظام فرما رہا ہے۔ [١٣] نباتات کی روئیدگی سے بعث بعد الموت پر دلیل :۔ عرب کے اور بالخصوص مکہ اور اس کے ارد گرد کے پہاڑ سخت خشک قسم کے پہاڑ ہیں جہاں کوئی ہریالی نظر نہیں آتی۔ شدید گرمی پڑتی ہے اور وہاں کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں کئی کئی سال بارش نہیں ہوتی۔ لیکن جب بارش ہوتی ہے تو وہاں بھی کچھ نہ کچھ سبزہ اگ آتا ہے۔ گھاس اگ آتی ہے اور حشرات الارض بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں تو یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ شاید وہاں پچھلے سال کی گھاس کی جڑیں کچھ نہ کچھ باقی رہ گئی ہوں گی یا کوئی نہ کوئی زمینی کیڑا ہی کسی پناہ گاہ میں پناہ لے کر بچ گیا ہوگا اور بارش میں اس کی نسل پھلنے پھولنے لگی ہوگی یا کسی درخت کا بیج ہی زمین میں پڑا ہوگا اور اس میں ابھی زندگی کی رمق باقی ہوگی اور بارش ہونے پر وہ اگ آیا ہوگا۔ لیکن ایسے علاقے جو سخت گرم اور پتھریلے ہیں۔ وہاں تو کسی بیج یا زمینی کیڑے کے اگلی بارش کے موسم تک زندہ رہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر ایسے علاقوں میں حشرات الارض یا نباتات کہاں سے پیدا ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ نباتات اور حشرات الارض کے بیج کے بغیر بھی یہ چیزیں زمین سے برآمد کرسکتا ہے۔ تو یقیناً ہزارہا برس کے مرے ہوئے اور زمین میں ملے ہوئے انسانوں کو بھی زندہ کرکے زمین سے نکال سکتا ہے۔