بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ
بلکہ جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا۔ چنانچہ یہ لوگ ایک الجھی ہوئی بات [٦] میں پڑ گئے
[٦] پہلے اعتراض کے متعلق کفار کی بدحواسی :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے انکار اور قرآن کے منزل من اللہ نہ ہونے کی حد تک تو سب کفار مکہ متفق تھے۔ مگر اب انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ پیغمبر اسلام اور قرآن کو کہیں تو کیا کہیں؟ کیونکہ نہ پیغمبر اسلام کوئی عام آدمی تھے اور نہ قرآن کوئی معمولی اور عام کتاب تھی اور یہ باتیں سب کفار کو نظر آرہی تھیں۔ کبھی تو وہ کہتے کہ یہ نبی شاعر ہے اور یہ کتاب شاعری ہے، کبھی کہتے یہ نبی کاہن ہے اور یہ کتاب کہانت ہے، کبھی کہتے یہ نبی جادوگر ہے اور یہ کتاب جادو ہے، کبھی یہ کہتے کہ یہ قرآن تو پرانی کہانیاں ہی ہیں جنہیں یہ نبی خود ہی تالیف کرکے ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے۔ یہ متضاد اور مختلف باتیں خود اس کا ثبوت ہیں کہ یہ لوگ اپنے موقف میں بالکل الجھ کر رہ گئے ہیں۔