يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا ۖ قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُم ۖ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
وہ آپ پر یہ احسان دھرتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے۔ آپ ان سے کہئے :''اپنے اسلام لانے کا مجھے احسان نہ جتلاؤ۔ بلکہ اللہ نے تم پر احسان کیا ہے کہ تمہیں ایمان کی ہدایت دے [٢٧] دی۔ اگر (فی الواقع) تم (اپنی بات میں) سچے ہو۔
٢٧] بدوی قبائل کن اغراض کے تحت اسلام لائے تھے؟ ایسے بدو دراصل اسلام لا کر احسان یہ جتلاتے تھے کہ ہم از خود ہی مطیع بن کر اور اسلام لاکر آپ کے پاس حاضر ہوگئے ہیں اور آپ کو ہمارے خلاف لشکر کشی نہیں کرنا پڑی۔ اور اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ اب ہماری طرف توجہ فرمائیے اور اموال غنائم میں سے ہمیں بھی کچھ مال دیجئے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا کہ انہیں کہہ دیجئے۔ کہ اگر اسلام لائے ہو تو اپنی ہی ذاتی اغراض کے لئے لائے ہو، ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہوتا جو دوسرے کافروں کا ہو رہا ہے۔ اس اسلام لانے کا مجھ پر کیا احسان دھرتے ہو؟ بلکہ یہ تو اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں اسلام لانے کی توفیق دی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے تمہارے جان و مال محفوظ ہوگئے اور پٹائی نہیں ہوئی۔ یہ تم کیا الٹی گنگا بہا رہے ہو؟ اور دیکھو اگر تم فی الواقع سچے ایماندار ہوتے تو تمہیں یہ بات کہتے بھی شرم آنی چاہئے تھی۔ جیسے ایک بادشاہ اگر کسی کو ملازم رکھ لے تو یہ بادشاہ کا ملازم پر احسان تو ضرور ہوتا ہے مگر ملازم اسے کسی صورت یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تمہاری خدمت کرکے تم پر احسان کر رہا ہوں۔