لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
بیشک اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت [٢٤] کر رہے تھے۔ ان کے دلوں کا حال اسے معلوم ہوگیا لہٰذا اس نے ان پر اطمینان [٢٥] نازل فرمایا اور انہیں جلد ہی فتح دے [٢٦] دی۔
[٢٤] صحابہ کرام پر طعن کرنے والے؟ اس آیت کا آغاز ﴿ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ﴾ سے ہوا ہے۔ اسی وجہ سے اس بیعت کا نام بیعت رضوان پڑگیا یعنی ایسی مخلصانہ اور سرفروشانہ بیعت جس پر اللہ نے ان لوگوں کو اپنی خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ دے دیا۔ اور بعض احادیث میں صراحت سے یہ مذکور ہے کہ اس بیعت میں حصہ لینے والے سب جنتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض لوگ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان میں بھی شک کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ بلاشبہ یہ لوگ بیعت رضوان کے وقت تو اسلام کے وفادار اور اس کے لئے مخلص تھے مگر بعد میں بے وفاثابت ہوئے۔ گویا ان لوگوں نے پہلا الزام تو ان عظیم المرتبت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر لگایا تھا۔ دوسرا اللہ تعالیٰ پر لگایا جسے اپنی رضامندی کا سرٹیفکیٹ دیتے وقت اتنا بھی پتا نہ چل سکا کہ جن لوگوں کو میں یہ سند دے رہا ہوں وہ تو بعد میں بے وفا نکلیں گے۔ گویا یہ نظریہ ممتاز صحابہ کرام کی توہین ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب پر بھی زبردست چوٹ ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی خیرمنانا چاہئے۔ درخت جس کے نیچے بیعت کی گئی تھی :۔ جس درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لی تھی اس کے متعلق دو طرح کی روایات ملتی ہیں۔ طبری کی روایت کے مطابق مسلمان اس درخت کی زیارت کو جانے لگے۔ وہ وہاں جاکر نمازیں اور نوافل وغیرہ ادا کرتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اسے اپنے دور خلافت میں کٹوا دیا۔ اس کے مقابلہ میں صحیح اور معتبر روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگلے ہی سال خود بیعت رضوان میں شامل ہونے والے بعض صحابہ وہاں گئے تو وہ خود بھی اس درخت کو پہچان نہ سکے جس کے نیچے بیعت لی گئی تھی۔ اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن ہم ایک ہزار چار سو آدمی تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) طارق بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں حج کی نیت سے روانہ ہوا۔ راستے میں کچھ لوگوں کو نماز ادا کرتے دیکھا تو پوچھا کہ’’یہ مسجد کیسی ہے؟‘‘ کہنے لگے : یہاں وہ درخت تھا جس کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بیعت رضوان لی تھی۔ یہ سن کر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا۔ تو انہوں نے کہا کہ میرے والد (مسیب بن حزم) ان لوگوں سے تھے جنہوں نے درخت کے تلے بیعت کی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ’’جب میں دوسرے سال وہاں گیا تو اس درخت کو پہچان نہ سکا‘‘ سعید کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تو اس درخت کو پہچان نہ سکے۔ اور تم لوگ ان سے زیادہ علم رکھتے ہو۔ (کہ اسے پہچان کر وہاں مسجد بنا ڈالی) (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الحدیبیۃ) [٢٥] اس دن جنگ کو روکنا اللہ کا احسان تھا :۔ یعنی بیعت کرنے والوں کی نسبت یہ معلوم ہوگیا کہ ان میں اسلام کی خاطر کس قدر جان نثاری اور سرفروشی کا جذبہ موجود ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اس بات پر جما دیا کہ نتائج خواہ کیسے برآمد ہوں ہمیں ضرور جنگ لڑنا چاہئے۔ بظاہر جو نتیجہ نظر آرہا تھا وہ تو یہی تھا ایک طرف صرف چودہ سو نہتے اور پردیسی مسلمان تھے۔ دوسری طرف ان کا طاقتور جانی دشمن تھا جو سازوسامان کے لحاظ سے، تعداد کے لحاظ سے، رسد کے لحاظ سے غرضیکہ ہر لحاظ سے ان سے بڑھ کر تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنے گھر پر تھا اور اس کے حریف اس مسلمان کے گھر آگئے تھے۔ اس صورت حال میں اللہ کا مسلمانوں کے دلوں کو جنگ پر جما دینا اور اسے اطمینان مہیا کردینا واقعی اللہ کی بہت بڑی نعمت تھی۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنگ کی طرف اس قدر پیش رفت کے بعد اللہ نے کافروں سے بہرحال صلح کرلینے کی خاطر ان کے جذبات کو ٹھنڈا کرکے انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر مطمئن کردیا۔ [٢٦] قریبی فتح سے مراد فتح خیبر ہے جو صلح نامہ حدیبیہ کے صرف تین ماہ بعد وقوع پذیر ہوئی تھی۔