سورة الفتح - آیت 2

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف کردے [٢] اور آپ پر اپنی نعمت پوری کردے اور آپ کو سیدھی راہ پر چلائے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢] ذَنْبٌ ہر اس فعل کو کہتے ہیں جس کا انجام برا ہو (مفردات القرآن) اور بمعنی ہر وہ کام جس کے نتیجہ میں مذمت ہو (فقہ اللغۃ اور اس لفظ کا اطلاق اس قدر عام ہے کہ چھوٹی چھوٹی لغزشوں سے لے کر بڑے بڑے گناہوں پر بھی ہوسکتا ہے۔ سب سے بڑا گناہ قتل ناحق ہوتا ہے۔ اس کے لئے بھی یہی لفظ آیا ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے فرماتے ہیں : ﴿ وَلَہُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ ﴾(۱۴:۲۶)اور میرے اوپر ان کا ایک گناہ (خون ناحق) ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے مار ہی نہ ڈالیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ﴿عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ ﴾(۴۳:۹)اللہ آپ کو معاف فرمائے آپ نے ان منافقوں کو کیوں (جہاد سے رخصت کی) اجازت دی؟۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ معافی کسی گناہ یا غلطی کے کام پر ہی ہوتی ہے۔ اور اس آیت میں ذنب سے مراد تدبیری امور میں بعض اجتہادی غلطیاں ہیں جو بشریت کا خاصہ ہیں۔ اور اگلے پچھلے گناہ معاف کردینے کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ آپ دیدہ دانستہ کوئی گناہ کر ہی نہیں سکتے۔ اس آیت کی آپ کو جو خوشی ہوئی اور اس کا آپ نے جو تاثر قبول کیا وہ مندرجہ ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے واپس مدینہ جارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر ایک آیت ﴿لِیَغْفِرَلَکَ﴾ ایسی اتری ہے جو مجھے زمین کی ساری دولت سے پیاری ہے۔ صحابہ کہنے لگے : یارسول اللہ مبارک ہو، مبارک ہو! اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو وضاحت فرمادی مگر ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ؟ تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿ لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَوْزًا عَظِیْمًا ﴾ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٢۔ صلح حدیبیہ کے بعد آپ کی عبادت میں اضافہ :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کو کوئی حکم دیتے تو ایسے کاموں کا دیتے جنہیں وہ (بآسانی) کرسکتے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم عرض کرتے، ہم آپ جیسے نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو اللہ نے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے ہیں۔ اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں آجاتے اور غصہ کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر نمودار ہوجاتے اور فرماتے : ’’(سن لو) تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اسے جاننے والا میں ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب قول النبی انا اعلمکم باللّٰہ) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو (تہجد کی نماز میں) اتنا زیادہ قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں تڑخ جاتے (اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سوج جاتے) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :’’یارسول اللہ ! آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو اللہ تعالیٰ نے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ’’کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟‘‘ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم (آخر عمر میں) فربہ ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز بیٹھ کر پڑھا کرتے۔ جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو کر کچھ قرأت فرماتے۔ پھر رکوع کرتے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)