فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ
پھر (اے منافقو!) تم لوگوں سے کیا بعید ہے کہ اگر تم حاکم ہوجاؤ تو زمین [٢٦] پر فساد کرنے لگو اور قطع رحمی کرنے لگو
[٢٦] منافقوں سے کسی بھلائی کی توقع محال ہے :۔ منافقوں کو جہاد صرف اس لیے ناگوار تھا کہ وہ اسلام اور اس کے مفادات کے مقابلہ میں اپنی جان اور مال کو عزیز تر سمجھتے تھے۔ یعنی ان کا اولین مقصد مال کا حصول اور اپنی جان کو بچانا تھا۔ ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں دنیا میں حکومت مل بھی جائے تو ان سے کسی بھلائی کی توقع نہیں جاسکتی یہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ملک میں فتنہ و فساد ہی برپا کریں گے۔ اور اس سلسلہ میں اپنے رشتہ داروں کے گلوں پر چھری پھیرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ اور اگر تَوَلَیْتُمْ کا معنی پھر جانا اور اعراض کرنا لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر تم جہاد سے بدک کر اسلام سے پھر جاؤ تو تمہارے متعلق یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ تم پر پھر اسلام سے ماقبل کی حالت عود کر آئے۔ انہی پہلی سی قبائلی جنگوں میں تم پڑجاؤ جن سے نکلنے کی تمہیں کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی تم وہی پہلی سی لوٹ مار، قتل و غارت اور فتنہ و فساد کرنے لگو گے۔ قطع رحمی' ام ولد کی خرید وفروخت کی ممانعت :۔ اس آیت نیز قرآن کی بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قطع رحمی بہت بڑا گناہ کبیرہ ہے۔ اسی آیت کے حکم کو مدنظر رکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی مجلس شوریٰ کے مشورہ سے ام الولد کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا تھا۔ چنانچہ سیدنا بریدہ کہتے ہیں کہ وہ ایک دن سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ محلہ میں یکایک ایک شور مچ گیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جارہی ہے جبکہ اس لونڈی کی لڑکی کھڑی رو رہی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت یہ مسئلہ اپنی شوریٰ میں پیش کردیا تاکہ دیکھیں پوری شریعت میں ایسی قطع رحمی کا کوئی جواز نظر آتا ہے؟ سب نے نفی میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے بڑی قطع رحمی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ماں کو اس کی بیٹی سے جدا کردیا جائے؟ اس وقت آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس مسئلہ کی روک تھام کے لیے آپ جو مناسب سمجھیں اختیار فرمائیں۔ چنانچہ آپ نے سارے بلاد اسلامیہ میں یہ فرمان جاری کردیا کہ جس لونڈی سے مالک کی اولاد پیدا ہوجائے وہ اسے فروخت نہیں کرسکتا۔ اس روایت کو اگرچہ بعض مفسرین نے درج کیا ہے مگر اس کا حوالہ مذکور نہیں۔ علاوہ ازیں یہ روایت ویسے بھی درست معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ ام الولد کی فروخت کی تحریم سنت نبوی سے ثابت ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے اپنی لونڈی سے مباشرت کی۔ پھر اس سے اس کا بچہ پیدا ہوگیا تو وہ لونڈی اس کے مرنے کے بعد آزاد ہوگی‘‘ (احمد۔ ابن ماجہ۔ بحوالہ نیل الاوطار ج ٦ ص ٢٣١) ٢۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کے پاس ام ابراہیم (ماریہ قبطیہ) کا ذکر کیا۔ تو آپ نے فرمایا : ’’اس کا بچہ اس کی آزادی کا سبب بن گیا‘‘ (ابن ماجہ، دارقطنی بحوالہ ایضاً) ٣۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی نے اولاد والی لونڈیوں کو بیچنے سے منع فرمایا اور کہا کہ وہ نہ بیچی جاسکتی ہیں نہ ہبہ کی جاسکتی ہیں اور نہ ترکہ میں شمار ہوسکتی ہیں۔ جب تک ایسی لونڈی کا مالک زندہ ہے وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور جب وہ مر جائے تو وہ لونڈی آزاد ہے۔ (موطا امام مالک، دارقطنی بحوالہ ایضاً) ان احادیث میں موطا امام مالک اول درجہ کی کتب میں شمار ہوتی ہے۔ ابن ماجہ درجہ دوم اور دارقطنی درجہ سوم میں۔ تاہم یہ سب احادیث ایک دوسرے کی تائید کر رہی ہیں اور مرفوع ہیں۔ اور اس مسئلہ کے جملہ پہلوؤں پر روشنی ڈال رہی ہیں یعنی ایسی لونڈی کا مالک خود بھی اپنی زندگی میں اسے نہ فروخت کرسکتا ہے اور نہ ہبہ کرسکتا ہے۔