مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ ۖ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ
جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو کبھی باسی نہ ہوگا اور دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ کبھی نہ بدلے گا اور شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لئے لذیذ ہوگی اور کچھ نہریں صاف شدہ شہد کی ہوں گی [١٦]۔ نیز ان کے لئے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے پروردگار کی طرف سے مغفرت [١٧] ہوگی۔ ایسا شخص کیا ان لوگوں کی طرح ہوسکتا ہے جو ہمیشہ آگ میں رہنے والے ہوں اور انہیں پینے کو کھولتا ہوا پانی دیا جائے جو ان کی آنتیں بھی کاٹ [١٨] کر رکھ دے؟
[١٦] جنت کے چار مشروبات کی صفات :۔ اس آیت میں جنت کے حالات بیان کرتے ہوئے پہلے چار مشروبات اور ان کی صفات کا ذکر فرمایا۔ پہلے نمبر پر پانی کی صفت یہ بیان فرمائی کہ غَیْرَ آمیِنْ ہوگا۔ یعنی نہ وہ متعفن ہوگا نہ اس کا رنگ بدلا ہوگا اور نہ ذائقہ۔ دنیا میں پانی کے کھڑے ذخیروں کا عموماً رنگ ذائقہ اور بو تینوں چیزیں بدل جاتی ہیں اور بارش کے پانی میں گردوغبار مل جاتا ہے۔ اور دریاؤں کا پانی مٹی کی آمیزش سے گدلا ہوجاتا ہے۔ جنت میں پانی کے چشموں سے جو پانی جاری ہوگا وہ نہایت صاف ستھرا، نتھرا ہوا، بے رنگ، بے بو ہوگا۔ اس کا ذائقہ بھی میٹھا ہوگا بدلا ہوا نہ ہوگا۔ دوسرے نمبر پر دودھ کا ذکر فرمایا۔ دنیا میں جو دودھ جانوروں کے تھنوں سے نکلتا ہے۔ اس میں کچھ تو تھنوں کی آلائش کی آمیزش ہوجاتی ہے پھر اگر دودھ کچھ دیر پڑا رہے تو پھٹ جاتا ہے۔ اور اس کا ذائقہ ترش اور بدمزہ ہوجاتا ہے۔ جنت میں دودھ بھی پانی کی طرح چشموں سے رواں ہوگا اور اپنی اصلی حالت میں بدستور قائم رہے گا۔ اس کے ذائقہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ تیسرے نمبر پر شراب کا ذکر فرمایا۔ دنیا کی شراب کا ذائقہ تلخ، بوناگوار ہوتی ہے۔ حواس کو مختل کردیتی ہے اور بعض دفعہ سر چکرانے لگتا ہے۔ جنت میں شراب بھی چشموں کی صورت میں رواں ہوگی۔ وہ مذکورہ تمام عیوب سے پاک اور مزیدار ہوگی۔ چوتھے نمبر پر شہد کا ذکر فرمایا۔ جو شہد کی مکھی کے پیٹ سے نکلتا ہے۔ شہد کے چھتے میں موم اور ستھے کی آمیزش ہوتی ہے اور اوپر جھاگ ہوتا ہے۔ جنت میں شہد بھی چشموں سے نکل کر رواں ہوگا۔ نہایت صاف ستھرا اور ایسے عیوب سے پاک ہوگا۔ [١٧] مشروبات کے بعد پھر مختصراً ماکولات کا ذکر فرمایا کہ کھانے کے لیے انہیں ہر طرح کے بہترین اور مزیدار پھل مہیا کئے جائیں گے۔ اور اللہ کی سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ ان کی دنیا کی زندگی کی تمام کوتاہیوں پر پردہ ڈال دیا جائے گا۔ جو کسی کے ذہن میں نہ آسکیں گی۔ اور ایسی کوتاہیوں کو اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ [١٨] یعنی ایک طرف تو وہ شخص ہے جو جنت کی متذکرہ بالا نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اور دوسری طرف ایسا شخص ہے جو ہمیشہ کے لیے دوزخ کی آگ میں جل رہا ہے۔ کھانے کو اسے خاردار اور زہریلا تھوہر کا درخت ملے گا اور پینے کو سخت گرم کھولتا ہوا پانی۔ کیا ان دونوں کا انجام ایک جیسا ہے۔؟