سورة الأحقاف - آیت 34

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَلَيْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جس دن کافر دوزخ پر پیش کئے جائیں گے (تو ان سے پوچھا جائے گا) کیا یہ (جہنم) حق [٤٧] نہیں؟ وہ کہیں گے : کیوں نہیں۔ ہمارے پروردگار کی قسم (یہ حق ہے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو اب عذاب کا مزا چکھو یہ اس چیز کا بدلہ ہے جو تم کفر کیا کرتے تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٧] کافر اور آخرت کے منکر آخرت کا انکار اس لیے کرتے ہیں کہ اگر وہ اس کا اقرار کرلیں تو اس سے ان کی آزادی میں خلل آتا ہے۔ اور اس کی مثال بالکل وہی ہے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ حالانکہ کبوتر کے آنکھیں بند کرلینے کے باوجود بھی بلی وہاں موجود ہی رہتی ہے اور حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسی طرح منکروں کے آخرت کے انکار کردینے سے حقیقت میں کچھ فرق نہیں پڑتا اور قیامت کے دن انہیں کہا جائے گا کہ اب ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو کیا عذاب ایک ٹھوس حقیقت ہے یا نہیں جس سے تم آنکھیں بند کرکے اس کا انکار کردیا کرتے تھے؟ اور اس دن انہیں اقرار کرنے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔