وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَّكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِن قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
اور جس شخص نے اپنے والدین سے کہا'': تف ہو تم پر، تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو کہ میں (زندہ کرکے زمین سے) نکالا جاؤں گا حالانکہ مجھ [٢٦] سے پہلے بہت سی نسلیں گزر چکی ہیں۔ (اور ان میں سے کوئی بھی جی کر نہیں اٹھا) اور وہ دونوں اللہ کی دہائی دے کر اسے کہتے : ’’تیرا ستیاناس۔ ہماری بات مان جا کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہے‘‘ تو وہ کہتا ہے : ’’یہ تو بس پہلے لوگوں کی داستانیں [٢٧] ہیں‘‘
[٢٦] یہ کوئی مخصوص کردار نہیں ہے۔ بلکہ مکہ میں ایسی مثالیں بھی موجود تھیں۔ بعض لوگ خود مشرک تھے اور ان کی اولاد مسلمان ہوگئی تھی اور بعض بڑے بوڑھے خود مسلمان تھے مگر ان کی نوجوان اور متکبر اولاد مشرک اور عقیدہ آخرت سے منکر تھی۔ اس آیت میں ''گفتہ آید در حدیث دیگراں'' کے مصداق ایسے ہی ایک گھرانے کا مکالمہ پیش کیا جارہا ہے۔ مشرک بیٹے کی وہی پرانی اور گھسی پٹی دلیل ہے جو کہ آخرت کے منکر عموماً جواب میں کہا کرتے ہیں کہ ہزارسال سے لوگ مرتے رہے ہیں کوئی زندہ ہو کر واپس تو آیا نہیں۔ پھر تم مجھے یہ کیسی دھمکی دیتے ہو۔ اس سوال کا جواب یہاں چھوڑ دیا گیا ہے۔ کیونکہ اکثر مقامات پر قرآن میں اس کا جواب دیا جاچکا ہے۔ [٢٧] اگر عقیدہ آخرت پرانا ہے تو اس کا جواب بھی تو اتنا ہی پرانا افسانہ ہے :۔ پہلے لوگ بھی کچھ ایسی باتیں کرتے رہے ہیں مگر آج تک چونکہ کوئی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر واپس نہیں آیا تو پھر ہم ان کی یہ بات کیسے درست تسلیم کرلیں۔ یہ تو محض پرانے افسانے ہی ہیں۔ مگر اسے یہ بات یاد نہیں رہتی کہ اگر یہ پرانے افسانے ہیں تو اس کا جواب بھی تو ویسا ہی پرانا افسانہ ہے جو آخرت کے منکر دیتے رہے ہیں۔