وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ
اور جب لوگ اکٹھے کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن بن جائیں [٧] گے اور ان کی عبادت کا انکار کردیں گے۔
[٧] من دون اللہ سے مراد یہاں بت نہیں بلکہ فوت شدہ بزرگ ہیں :۔ آیت نمبر ٥ اور ٦ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بے جان قسم کے معبود مراد نہیں ہیں۔ کیونکہ بے جان معبود ہی ایسے ہوسکتے ہیں جن کا دشمنی اور دوستی سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی وہ عبادت سے انکار کرسکتے ہیں۔ لامحالہ یہاں جاندار معبود ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ پھر جانداروں میں سے بھی فرشتے خارج از بحث ہیں۔ کیونکہ ان کا حشر نہیں ہوگا۔ باقی صرف جن، نبی، پیر، اولیاء وغیرہ ہی رہ جاتے ہیں۔ جن پر حسد، دشمنی اور عبادت سے انکار سب باتیں چسپاں ہوسکتی ہیں۔ پھر ایسے معبودوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک پیغمبر اور صحیح العقیدہ اولیاء کرام یہ اپنے عابدوں سے کہیں گے کہ کم بختو! ہم تو ساری زندگی خود بھی اللہ سے ہی دعا کرتے رہے اور تمہیں بھی یہی تلقین کرتے رہے۔ پھر تم نے کیا الٹی گنگا بہادی کہ ہم کو ہی پکارنا شروع کردیا۔ ان لوگوں کا اپنے عابدوں کا دشمن ہونا صاف واضح ہے۔ دوسرے ایسے معبود ہیں جو خود بھی یہی چاہتے تھے کہ لوگ ان میں خدائی اختیارات تسلیم کریں اور انہیں پکارا کریں۔ ایسے لوگ جب قیامت کے ہولناک مناظر اور شرک کا انجام دیکھیں گے تو صاف مکر جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے کب کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کرنا۔ اور یہ بات عابدوں کو سخت ناگوار گزرے گی۔ لہٰذا وہ بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ سماع موتی کی حقیقت :۔ یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا فوت شدہ حضرات دنیا والوں کی پکار سنتے ہیں یا نہیں؟ جسے عرف عام سماع موتی کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ سو اس آیت میں اس بات کی مکمل نفی ہے۔ کہ وہ قیامت تک بھی دنیاوالوں کی پکار نہیں سن سکتے۔ تاہم بعض آیات سے اتنا اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جسے چاہے سنا سکتا ہے۔ نیز صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کا سلام فرشتوں کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی قرآن میں صراحت سے مذکور ہے۔ کہ مرنے کے بعد نیک لوگوں کی ارواح علیین میں اور بدکاروں کی ارواح سجین میں ہوتی ہیں۔ اور وہاں وہ دنیا والوں کی کوئی آواز براہ راست اور بلاواسطہ سن نہیں سکتے کیونکہ وہ عالم بھی دوسرا ہے۔ اللہ کا فوت شدہ لوگوں کو سنانے کا ضابطہ :۔ اب سنانے کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کا ضابطہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کو صرف وہی خبر پہنچائی جاتی ہے جس سے ان کی راحت میں اضافہ ہو۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کا سلام پہنچایا جاتا ہے۔ یا نیک اولاد کی دعائیں ان کے والدین کو پہنچا دیں جاتی ہیں۔ انہیں کوئی ایسی خبر نہیں پہنچائی جاتی جو ان کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔ اور بدکاروں کو کوئی راحت انگیز خبر نہیں سنائی جاتی۔ انہیں صرف ایسی خبریں سنائی جاتی ہیں جو ان کے لیے مزید سوہان روح بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنوئیں میں پھینکے ہوئے مقتول کافروں سے ان کی سرزنش اور زجر و توبیخ کے طور پر خطاب کیا تھا اور اللہ نے وہ بات ان تک پہنچا دی تھی۔ اور صحابہ کے استفسار پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ جواب دیا تھا کہ وہ تم سے کچھ کم نہیں سن رہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف روح، عذاب قبر اور سماع موتی )