وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُم مَّا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ
اور جب تمہیں کہا جاتا کہ : ’’اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں‘‘ تو تم کہہ دیتے تھے : ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا چیز ہے؟ ہم تو اسے ایک ظنی چیز ہی خیال کرتے ہیں [٤٥] اور ظنی چیز پر ہم یقین نہیں کرسکتے۔
[٤٥] ایمان کے کسی جزو میں بھی شک کرنے والے کافر ہیں :۔ اس آیت سے ایک اہم حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے منکر اور قیامت میں شک رکھنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں، دونوں ہی ایک جیسے مجرم اور کافر ہیں۔ اور اس سے آگے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ جن جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر، اس کے فرشتوں پر اس کے رسولوں پر، اس کی کتابوں پر، روز آخرت پر اور خیر و شر کے اللہ کی طرف سے مقدر ہونے پر۔ ان میں سے کسی بھی ایک چیز کا انکار کردینا یا اسے مشکوک سمجھنا ایک ہی بات ہے اور ایسا شک کرنے والا مومن نہیں بلکہ کافر ہی ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ آخرت میں شک کرنے والے مجرم کیوں ہوتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو احکام الٰہی کا پابند بنانے اور بنائے رکھنے والی چیز صرف اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کا تصور ہے۔ اب اگر کوئی شخص آخرت کا منکر ہو یا اس میں شک رکھتا ہو، دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ یعنی انسان بلاخوف گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔