وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ
یہ لوگ کہتے ہیں۔ ’’یہ بس ہماری دنیا ہی زندگی ہے۔ یہاں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی [٣٥] ہمیں ہلاک کرتا ہے‘‘ حالانکہ ان باتوں کا انہیں کچھ علم نہیں وہ محض گمان [٣٦] سے یہ باتیں کرتے ہیں۔
[٣٥] فلسفہ دہریت اور اس کا رد :۔ ان لوگوں کا فلسفہ یہ ہے کہ یہ کائنات ایک اتھاہ سمندر ہے۔ جس میں ہر وقت لہریں اٹھتی ہیں پھر اسی سمندر میں مدغم ہوجاتی ہیں۔ حباب اٹھتے ہیں تو وہ پھر اسی میں جذب ہوجاتے ہیں۔ یہی صورت حال اس دنیا میں واقعات و حوادث کی ہے اور ہماری مثال بس ایک حباب یا بلبلہ کی ہے جو پیدا ہوتا پھر اسی سمندر میں گم ہوجاتا ہے۔ ہم پیدا ہوتے ہیں پھر مر کر اسی میں مل جاتے ہیں۔ یہ زمانے کے حوادث ہیں کہ ہم پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ کائنات اسی طرح چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔ جس میں کسی کے مر کر دوبارہ جینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ [٣٦] آخرت سے انکار کی بنیاد محض وہم وقیاس ہے جس پر کوئی علمی دلیل پیش نہیں کی جا سکتی :۔ اس فلسفہ سے نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی آپ سے آپ ظاہر ہے۔ سمندر میں ایک موج اٹھی پھر اسی میں گم ہوگئی پھر اسی سمندر سے موج اٹھی گویا اگر سمندر سے دوبارہ بھی موج اٹھ سکتی ہے تو مٹی سے پیدا ہو کر انسان مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ اسی مٹی سے کیوں پیدا نہیں ہوسکتا ؟ نیز مرنے کے بعد کے حالات سے متعلق اگر کچھ انسانی علم کی بنا پر کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ’’ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی ہے یا نہیں‘‘ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ’’مرنے کے بعد دوسری زندگی نہیں ہے‘‘ انسان کے پاس تحقیق کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے وہ دعویٰ کے طور پر کہہ سکے کہ ’’مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں‘‘ پھر یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ مرنے کے بعد روح کہاں جاتی ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ تو نہیں مرتی کیونکہ روح کے متعلق سب لوگوں کا ایسا ہی عقیدہ رہا ہے۔ انسان کی موت کوئی ایسا حادثہ تو نہیں جیسے ایک گھڑی چلتے چلتے رک جائے۔ ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ظن غالب بھی دوبارہ زندہ ہونے کی طرف ہی ہے۔ مر کر بالکل فنا ہوجانے کی طرف نہیں۔ اور یہ لوگ جو دوبارہ زندگی کا انکار کرتے ہیں تو یہ بات کسی علم کی بنا پر نہیں کہتے بلکہ ان کا دل یہ نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہو۔ جس میں ان سے ان کے برے اعمال کی باز پرس ہو لہٰذا وہ اس کا سرے سے انکار کردینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اور یہ محض ان کا وہم و گمان ہی ہوتا ہے۔ کوئی علمی دلیل اس پر وہ کبھی پیش نہیں کرسکتے۔ دہریوں کی فریب خوردگی' دہر تو اللہ ہے :۔ دہریہ لوگ دراصل فریب خوردگی میں مبتلا ہوتے ہیں اور اسی میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے۔‘‘ حالانکہ زمانہ تو گردش لیل و نہار کا ہی دوسرا نام ہے۔ جس میں نہ حس ہے نہ شعور، نہ تصرف نہ اختیار پھر وہ ہمیں ہلاک کیسے کرتا ہے؟ لامحالہ ان کے ذہن میں کوئی اور چیز ہوتی ہے جو حس شعور، تصرف اور اختیار رکھتی ہو مگر وہ اس کا نام نہیں لینا چاہتے اور اس کے بجائے زمانہ کا نام لے لیتے ہیں اور جس چیز کا وہ نام نہیں لینا چاہتے وہ اللہ ہے۔ جس کا وجود اور علی الاطلاق تصرف واضح دلائل سے ثابت ہے اور زمانہ کا الٹ پھیر اور گردش لیل ونہار بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ : ’’ابن آدم مجھے دکھ پہنچاتا ہے جب وہ دہر (زمانہ) کو گالی دیتا ہے۔ حالانکہ دہر میں خود ہوں۔ تمام معاملات میرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ میں ہی رات اور دن پھیر کر لاتا ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الجاثیہ۔ زیر آیت مذکورہ)