أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
بھلا آپ نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو الٰہ [٣٣] بنا رکھا ہے اور اللہ نے علم کے باوجود [٣٤] اسے گمراہ کردیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ؟ اللہ کے بعد اب کون ہے جو اسے ہدایت دے سکے؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟
[٣٣] اپنی خواہشات کو معبود بنانا :۔ یہ بھی وہی شخص ہوسکتا ہے جسے اللہ کے سامنے حاضر ہونے اور اپنے اعمال کی جوابدہی کا یقین نہ ہو۔ ایسے شخص کی زندگی کا مقصد بس یہی رہ جاتا ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرتا جائے۔ کوئی اخلاقی پابندی یا شریعت کی عائد کردہ پابندیوں کو قبول نہ کرے۔ ایسا شخص نہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل کرنا گوارا کرسکتا ہے اور نہ نواہی سے اجتناب کرسکتا ہے وہ تو ظلم و عصیان میں شتر بے مہار کی طرح آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ [٣٤] علم گمراہی کا سبب کیسے بنتا ہے :۔ ﴿أضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ﴾ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے ازلی علم میں یہ بات طے شدہ تھی کہ وہ گمراہ ہوگا۔ تو اللہ نے اسے اسی گمراہی کے راستہ پر چلا دیا جس پر وہ چل رہا تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص خیروشر کی پوری تمیز اور اس کا علم رکھتا تھا۔ لیکن جب وہ اپنی خواہشات کے پیچھے پڑگیا تو اللہ نے اسے اس کے علم کے باوجود گمراہ کردیا۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے منکرین اور دہریوں کا بھی ایک فلسفہ ہوتا ہے جو انہیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اللہ بھی ایسے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے۔ اور چوتھا یہ کہ سب مذہبی فرقوں کے بانی عموماً عالم اور ذہین لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگ کر کتاب و سنت میں تاویل کرکے اپنا نظریہ کشید کرلیتے ہیں۔