أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
جو لوگ بداعمالیاں کر رہے ہیں کیا وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا [٢٩] کردیں گے کہ ان کا جینا [٣٠] اور مرنا [٣١] یکساں ہوگا یہ کیسا برا فیصلہ کر رہے ہیں
[٢٩] آخرت پر عدل کے تقاضا سے دلیل :۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو روز آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ روز آخرت پر یقین نہ رکھنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی اخلاقی پابندی کا پابند نہیں رہ سکتا۔ وہ بے لگام ہو کر اور بلاخوف و خطر دوسروں کے حقوق پامال کرنے لگتا ہے اور صرف اپنے ہی مفادات سوچنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ بدکرداروں اور نیک عمل کرنے والوں کا انجام ایک ہی جیسا ہونا چاہئے کہ سب مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں اور کسی سے اس کے اعمال کی بازپرس نہ ہو نہ ہی انہیں ان کے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ دیا جائے؟ کیا تم پروردگار عالم سے یہی توقع رکھتے ہو کہ وہ ایسی بے انصافی کو گوارا کرے گا ؟ اگر فی الواقع تمہارا یہی گمان ہے تو اللہ کے متعلق تمہارا یہ گمان بہت برا ہے۔ [٣٠] بدکردار اور نیکوکار کی، دنیوی زندگی کا تقابل :۔ ان کا جینا کبھی ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں کو حیات طیبہ نصیب ہوتی ہے۔ لوگ ان کی عزت کرتے اور ان کی راستبازی پر اعتماد کرتے ہیں۔ انہیں دنیا کی زندگی میں سکھ اور چین نصیب ہوتا ہے۔ دل مطمئن رہتا ہے۔ اس کے برعکس فریب کاروں، چوروں، ڈاکوؤں، زانیوں اور شراب خوروں کو کبھی حقیقی مسرت حاصل نہیں ہوتی۔ لوگوں میں بدنام ہوتے ہیں، ضمیر ملامت کرتا ہے۔ کوئی شخص دل سے کبھی ان کی عزت نہیں کرتا۔ مقدمات اور حکومت کا ڈر الگ رہتا ہے۔ غرض کہ بدکاروں کی دنیوی زندگی بھی تلخیوں اور بے چینیوں میں گزرتی ہے۔ موت کا وقت مقرر ہے اس سے پہلے کیسے مرجاتے ہیں۔ پھر ان دونوں کی زندگی ایک جیسی کیسے ہوئی؟ [٣١] اگر ان کی زندگی ایک جیسی نہیں تو یقین جانو کہ مرنا بھی ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ دنیوی مقدمات کا نتیجہ نکل کے رہے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ دونوں طرح کے انسان مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں۔ کسی سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ نہ نیک لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دیا جائے نہ بدکاروں کو سزا دی جائے اور یہ معاد پر پہلی عقلی دلیل ہے جو اللہ کی صفت عدل کے تقاضا کے مطابق ہے۔