مِّن وَرَائِهِمْ جَهَنَّمُ ۖ وَلَا يُغْنِي عَنْهُم مَّا كَسَبُوا شَيْئًا وَلَا مَا اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
پھر اس کے بعد [١١] ان کے لئے جہنم ہے اور جو کچھ انہوں نے دنیا میں کمایا نہ تو وہ ان کے کچھ کام [١٢] آئے گا اور نہ وہ جنہیں انہوں نے اللہ کے سوا کارساز [١٣] بنا رکھا تھا، اور انہیں بڑا سخت عذاب ہوگا۔
[١١] وراء کا لغوی مفہوم :۔ ورآء کا معنی آگے بھی اور پیچھے بھی، ادھر بھی اور ادھر بھی۔ اس لحاظ سے اس کے دو مطلب ہوئے۔ ایک یہ کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں ذلت کا عذاب ہوگا پھر اس کے بعد ان کے لیے عذاب جہنم بھی تیار ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس ذلت کے عذاب کے بعد جہنم بھی ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ [١٢] یعنی مال و دولت کام آئے گی اور نہ آل اولاد اور نہ ان کے اچھے اعمال۔ کیونکہ دنیا میں اگر انہوں نے کچھ اچھے عمل کئے بھی ہوں گے وہ برباد ہوجائیں گے اور ان کے کسی کام نہ آئیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ کام اس نیت سے کئے ہی نہ تھے کہ وہ آخرت میں ان کے کام آئیں گے بلکہ ان کا آخرت پر یقین ہی نہیں تھا۔ [١٣] کارسازوں کی اقسام :۔ یہ اولیاء بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ ہستیاں جن کی سفارش پر اعتماد کرکے لوگ بےدھڑک گناہ کے کام کرتے رہتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہم فلاں حضرت کی بیعت ہیں وہ ہمیں سفارش کرکے اللہ کی گرفت اور عذاب سے بچا لیں گے۔ دوسرے وہ چودھری قسم کے لوگ یا حکمران یا سیاسی لیڈر جن کی اللہ کے احکام کے مقابلہ میں اس لیے اطاعت کی جاتی ہے کہ اطاعت کرنے والوں کے دنیوی مفادات ان سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کارساز وہاں کام نہ آئے گا۔