سورة آل عمران - آیت 154

ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۖ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ۗ يُخْفُونَ فِي أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ ۖ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا ۗ قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ ۖ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پھر اس غم کے بعد اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر امن بخشنے والی اونگھ [١٤٣] طاری کردی۔ اور کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں صرف اپنی جانوں کی فکر پڑی [١٤٤] ہوئی تھی۔ وہ اللہ کے متعلق ناحق اور جاہلیت کے سے گمان کرنے لگے تھے۔ وہ پوچھتے تھے کہ آیا اس معاملہ میں [١٤٥] ہمارا بھی کوئی عمل دخل ہے؟ آپ ان سے کہہ دیں کہ اس معاملہ میں جملہ اختیارات اللہ ہی کے پاس ہیں۔ وہ اپنے دلوں میں ایسی باتیں چھپائے ہوئے ہیں جنہیں وہ آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرسکتے۔ کہتے ہیں کہ اگر اس معاملہ (جنگ احد) میں ہمارا بھی کچھ عمل دخل ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔ آپ ان سے کہئے کہ : ’’اگر تم لوگ اپنے گھروں میں رہتے تب بھی جن لوگوں کے لیے مرنا مقدر ہوچکا تھا وہ یقیناً اپنی قتل گاہوں [١٤٦] کی طرف نکل آتے‘‘ اور یہ شکست کا معاملہ تمہیں اس لیے پیش آیا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اللہ اسے آزمائے [١٤٧] اور جو کچھ (کھوٹ) تمہارے دلوں میں ہے اللہ تمہیں اس سے پاک کردے۔ اور اللہ دلوں کے خیالات تک کو خوب جانتا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٤٣] اتنے شدید قسم کے غموں کے بعد اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر اونگھ طاری کرنا ایک نعمت غیر مترقبہ اور غیر معمولی امداد تھی۔ اونگھ سے جسمانی اور روحانی دونوں طرح کا سکون حاصل ہوجاتا ہے۔ بدن کی تھکاوٹ دور ہوتی ہے اور غم یکدم بھول جاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن عین جنگ کے دوران مجھے اونگھ نے آدبایا، تلوار میرے ہاتھ سے گرنے کو ہوتی، میں اسے تھام لیتا، پھر گرنے کو ہوتی، پھر تھام لیتا۔ (بخاری کتاب التفسیر) [١٤٤]کمزور ایمان والو اورمنافقوں کاحال:۔ جو مسلمان غزوہ احد میں شریک ہوئے تھے۔ سب ایک جیسے پختہ ایمان والے اولوالعزم اور بہادر نہ تھے بلکہ کچھ کمزور دل بھی تھے اور انصار میں سے کچھ منافقین بھی تھے۔ جو انصار کے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے جنگ میں شریک تھے۔ اور یہ عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں کے علاوہ تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہیں نہ اسلام کی فکر تھی نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی، انہیں بس اپنی ہی جانوں کی فکر تھی، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اگر ابو سفیان نے دوبارہ حملہ کردیا تو پھر ہمارا کیا حشر ہوگا۔ کبھی وہ یہ سوچتے تھے اللہ اور اس کے رسول نے فتح و نصرت کے جو دعوے کئے تھے وہ کہاں گئے؟ ان لوگوں کے متعلق ترمذی میں جو روایت آئی ہے وہ یوں ہے : ’’یہ دوسرا گروہ منافقین کا تھا، جنہیں اپنی باتوں کے علاوہ اور کسی بات کی فکر نہ تھی وہ قوم میں سب سے زیادہ بزدل سب سے زیادہ مرعوب اور سب سے زیادہ حق کی حمایت سے گریز کرنے والے تھے۔‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر) [١٤٥] یعنی جنگی تدابیر اور ان کے متعلق مشورہ میں ہماری بات کو بھی درخور اعتنا سمجھا جاسکتا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس گروہ کے لوگوں کا بھی یہی خیال اور رائے تھی کہ جنگ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے اور ان کی یہ رائے کسی صوابدید پر نہیں بلکہ محض بزدلی کی بنا پر تھی۔ اب شکست کے بعد انہیں یہ کہنے کا موقع میسر آگیا کہ اگر ہماری رائے پر عمل کیا جاتا تو یہ برا دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ نہ ہی ہمارے بھائی بند یہاں مارے جاتے۔ [١٤٦] کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ ہے کہ جس مقام پر کسی کی موت واقع ہونا مقدر ہوتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی بہانے اپنے مقررہ وقت پروہاں پہنچ کے رہتا ہے، وہ مقام کون سا ہوگا ؟ یہ ایسی بات ہے جس کا اللہ کے سوا کسی کو بھی علم نہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے﴿وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ﴾(٣١: ٣٤) (کسی کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ وہ کس جگہ مرے گا) یعنی اگر جنگ برپا نہ بھی ہوتی تو جن جن لوگوں کا یہاں مرنا مقدر ہوچکا تھا وہ کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچ کے رہتے اور اگر میدان جنگ میں ان کا مرنا مقدر ہوتا اور میدان جنگ میں نہ آنے کے ہزاروں جتن کرتے، وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے یہاں پہنچ کے رہتے۔ کیونکہ اللہ کی تقدیر باقی سب باتوں پر غالب ہے۔ [١٤٧] اس جنگ اور پھر اس میں شکست کے واقعہ سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوا کہ ہر مسلمان کے متعلق سب کو پتہ چل گیا کہ وہ اپنے ایمان میں کس قدر مضبوط ہے۔ بہادر ہے اور عزم کا پکا ہے اور اسی طرح کمزور ایمان والوں، بزدلوں اور منافقوں کا بھی سب کو پتہ چل گیا۔ گویا یہ جنگ ایک امتحان گاہ تھی جس نے واضح کردیا کہ ہر ایک کے دل میں کیا کچھ ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ مخلص مسلمان اپنی کمزوریوں کو دور کرسکیں اور ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ آئندہ کے لیے وساوس اور کمزوریوں سے پاک و صاف بنا دے، اور منافقین کا نفاق کھل کر سامنے آجائے اور لوگ ان کے خبث باطن سے بچ سکیں۔