مِن فِرْعَوْنَ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَالِيًا مِّنَ الْمُسْرِفِينَ
(یعنی) فرعون [٢٢] سے وہ حد سے بڑھنے والوں میں سے سر نکال [٢٣] رہا تھا۔
[٢٢] یعنی فرعون کی ذات ہی بنی اسرائیل کے حق میں مجسم عذاب بنی ہوئی تھی جس کا ہر وقت کام یہ سوچنا ہوتا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ رسوا کن سزائیں کیسے دے سکتا ہے؟ [٢٣] یعنی حد سے بڑھنے والے تو اور بھی بہت سے لوگ تھے۔ ایسے لوگوں میں بھی فرعون کا سر سب سے اونچا تھا۔ جس کی حکومت اپنے دور میں سب سے بڑی اور مستحکم تھی۔ جس کا خاندان اپنے آپ کو سورج بنسی خاندان سے منسوب کرتا تھا اور جو اپنی رعایا کا قانونی اور سیاسی خدا بنا ہوا تھا اور ایسی خدائی کا دھڑلے سے دعویٰ بھی رکھتا تھا۔ اس نے جب اللہ کے رسول کو جھٹلایا اور اس کی مخالفت پر اتر آیا تو اے کفار مکہ! تم نے اس کا حشر دیکھ لیا اور تم تو اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں اپنی چھوٹی چھوٹی قبائلی سرداریوں پر اتراتے پھرتے ہو۔ تم اگر وہی فرعون والی سرکشی کی راہ اختیار کرو گے تو اپنا انجام خود سوچ لو۔