فَلَوْلَا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ
(اگر یہ رسول ہے تو) اس پر سونے کے گنگن کیوں نہ اتارے گئے یا فرشتوں کی گارد ہی [٥٢] اس کے ساتھ آئی ہوتی؟
[٥٢] فرعون کا قوم کے سامنے اپنا اور سیدنا موسیٰ کا تقابل پیش کرنا :۔ پرانے زمانے میں یہ رواج عام تھا کہ بادشاہ، نواب اور راجے مہاراجے سونے اور جواہرات کے کنگن پہنا کرتے اور اپنے جس درباری پر خوش ہوتے تو اسے بھی انعام و اکرام کے طور پر کنگن پہناتے اور جب کبھی سیر و سفر کو نکلتے تو ان کے آگے پیچھے فوجوں کے محافظ دستے ہوتے تھے اور یہ رواج آج کل بھی عام ہے۔ فرعون نے اپنے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے تقابل میں ایک تو دولت اور حکومت کا ذکر کیا۔ دوسرے موسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر یہ اعتراض کیا کہ اگر وہ فی الواقع اللہ کا زمین پر نائب ہے۔ تو کم از کم نشانی کے طور پر اسے سونے کے کنگن تو پہنائے گئے ہوتے یا کم از کم اس کی حفاظت کے لیے اس کے آگے پیچھے فرشتوں کے محافظ دستے ہی اس کی حفاظت پر مامور ہوتے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی چیز نہیں پھر وہ اللہ کا نائب کیسے ہوا ؟ تمہاری عقل پر کیا پتھر پڑگئے ہیں کہ تم میرے مقابلہ میں اس کی باتیں تسلیم کرنے لگے ہو؟