وَقَالُوا يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ
اور (ہر بار) وہ یہی کہتے : اے ساحر! تیرے پروردگار نے جو تجھ سے (دعا کی قبولیت) کا عہد کر رکھا ہے تو ہمارے لئے [٤٨] دعا کر، ہم ضرور راہ راست پر آجائیں گے
[٤٨] سیدنا موسیٰ کو قوم کی طرف سے ایذا دہی :۔ اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً (١) فرعون اور آل فرعون کو یہ پوری طرح معلوم ہوچکا تھا کہ آپ جادوگر نہیں بلکہ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ ان کی دعا سنتا ہے اور اسے قبول بھی کرتا ہے۔ اسی لیے وہ عذاب اور مصیبت کے وقت آپ کی طرف رجوع کرتے اور دعا کی درخواست کرتے تھے۔ (٢) ان کی اکڑ کا یہ عالم تھا کہ التجا کے وقت بھی وہ آپ کو''ساحر'' ہی کہتے تھے۔ جیسا کہ تمام انبیاء کو اس لقب سے نوازا جاتا رہا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ انہوں نے اپنی قوم کو مطمئن رکھنے اور الو بنانے کے لیے ''ساحر'' کے طور پر ہی مشہور کر رکھا تھا۔ یہی وہ باتیں تھیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو موسیٰ کو دکھ پہنچاتے رہے‘‘ (٣٣: ٦٩) (٣) جس طرح دوسرے انبیاء کو یہ حکم تھا کہ وہ کافروں کی باتوں کو صبر و تحمل سے برداشت کریں۔ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو بھی یہی حکم تھا اور یہ پے در پے عذاب چونکہ اللہ کی طرف سے تنبیہات تھیں لہٰذا سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنی اس توہین کو بھی برداشت کرتے۔ پھر اللہ کے حکم کے تحت ان کے لیے عذاب کے دور ہونے کی دعا بھی کرتے تھے۔