أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
کیا آپ پر تیرے رب کی رحمت کو تقسیم کرنے والے [٣١] یہ لوگ ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کا سامان زیست ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور کچھ لوگوں کو دوسروں پر بدرجہا فوقیت بھی دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں اور آپ کے پروردگار کی رحمت [٣٢] اس چیز سے بہتر ہے کہ جو یہ جمع کر رہے [٣٣] ہیں
[٣١] یہ لوگ کس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہیں کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا کرنے سے پہلے اللہ میاں کو ان سے مشورہ کرلینا چاہئے تھا۔ کہ نبوت و رسالت کا مستحق کون ہوسکتا ہے؟ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے۔ دوسرے انعامات بھی اللہ تعالیٰ نے جس جس کو دیئے ہیں ان میں بھی ان کا کچھ عمل دخل نہیں۔ اللہ نے کسی کو عقل زیادہ دی ہے کسی کو علم دیا ہے۔ کسی کو دولت زیادہ دی ہے اور کسی کو اولاد زیادہ اور کسی کو کم اور کسی کو بالکل نہیں دی۔ کسی کو قوت کار زیادہ دی ہے کسی کو جسمانی قوت زیادہ دی ہے، کسی کو حسن دیا ہے، کسی کو کوئی خوبی دی ہے، تو کسی کو کوئی دوسری خوبی دے دی ہے۔ اب یہ کیا چاہتے ہیں کہ ایک ہی شخص کو ساری خوبیاں دے دی جائیں یا کسی شخص کو کوئی بھی خوبی نہ دی جائے؟ حالانکہ جو کچھ اللہ نے تقسیم کردی ہے۔ اسی سے دنیا کا نظام قائم ہے۔ امیر کو غریب کی ضرورت ہے کہ وہ اس کے کام کاج کرے اور غریب کو امیر کی ضرورت ہے کہ اس کا کام کاج کرکے اپنے لیے روزی کمائے۔ اسی طرح شاگرد کو استاد کی اور استاد کو شاگردوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ غرضیکہ اسی اختلاف صفات کی بنا پر ہر شخص دوسرے کا محتاج ہے اور ان صفات کی تقسیم میں وہ خود بھی بے بس ہیں چہ جائیکہ دوسروں کے متعلق اور بالخصوص نبوت جیسی اعلیٰ درجہ کی نعمت کے متعلق دخل در معقولات کرنے لگیں۔ [٣٢] نبوت اللہ کی خاص نعمت اور رحمت ہے :۔ یہاں رحمت سے مراد رحمت خاص یا نبوت ہے۔ یعنی نبوت و رسالت کا شرف اس مال و دولت، ساز و سامان اور چودھراہٹوں سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے جن کے پیچھے تم پڑے ہوئے ہو۔ جب اللہ نے دنیا کی روزی اور دوسرا ساز و سامان بھی ان کی تجویز پر تقسیم نہیں کیا تو کیا نبوت ان کی تجویز اور رائے کے مطابق کسی کو دے گا ؟ اللہ تعالیٰ ٹھیک جانتا ہے کہ اس رحمت خاص کا اصل مستحق کون ہے اور کسے اس رحمت سے نوازنا چاہئے؟ [٣٣] کیونکہ دنیا کا مال فنا ہوجانے والا ہے اور اس کا کوئی بھروسا نہیں اور اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت خاص یعنی نبوت تو دونوں جہانوں میں نہایت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔