سورة غافر - آیت 50

قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۚ قَالُوا فَادْعُوا ۗ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ کہیں گے ’’کیا تمہارے پاس رسول واضح دلائل لے کر نہیں [٦٤] آئے تھے؟‘‘ دوزخی کہیں گے : ’’کیوں نہیں‘‘ (ضرور آئے تھے) تو وہ کہیں گے : ’’ پھر تم خود [٦٥] ہی دعا کرلو‘‘ اور کافروں کی دعا تو گُم ہی ہوجانے والی [٦٦] ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٤] وہ کہیں گے کہ سفارش بھی آخر کسی عذر کی بنا پر ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن تم نے معذرت کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تو سفارش میں ہم کیا کہیں۔ یا تو تم یہ کہو کہ ہمارے پاس نہ رسول آئے تھے نہ ہمیں اللہ کا پیغام پہنچا تھا۔ اور جب تمہارے پاس اللہ کے رسول واضح دلائل لے کر گئے تھے اور تمہیں ہر طرح کے انجام سے مطلع کردیا تھا تو پھر سفارش کس بنیاد پر کی جاسکتی ہے؟ [٦٥] یہ فرشتوں کا دوسرا جواب ہے۔ کہ ہمارا کام سفارش کرنا نہیں اور جو ہمارا کام ہے وہ ہم کر ہی رہے ہیں سفارش کرنا رسولوں کا کام ہے اور ان کی مخالفت کرکے تم نے انہیں پہلے ہی ناراض کر رکھا ہے۔ لہٰذا اب خود ہی دعا کرکے دیکھ لو۔ [٦٦] یعنی بے اثر، بے نتیجہ اور بے کار ثابت ہوتی ہے۔ کافروں کی پکار اللہ تعالیٰ تک پہنچتی ہی نہیں۔ راستے میں ہی گم ہوجاتی ہے۔