سورة غافر - آیت 43

لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جس کی طرف تم مجھے دعوت دیتے ہو اسے پکارنے کا نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہے [٥٦] اور نہ آخرت میں۔ اور یہ کہ ہماری واپسی اللہ کی طرف ہے اور بلاشبہ حد [٥٧] سے بڑھنے والے ہی دوزخی ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٦] اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ پہلا تو وہی مطلب ہے جو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کو نہ دنیا میں یہ حق پہنچتا ہے نہ آخرت میں کہ ان کی خدائی تسلیم کرنے کے لئے لوگوں کو دعوت دی جائے۔ تیسرا یہ کہ انہیں تو لوگوں نے زبردستی خدا بنا رکھا ہے ورنہ وہ خود نہ اس دنیا میں خدائی کے مدعی ہیں، نہ آخرت میں یہ دعویٰ لے کر اٹھیں گے کہ ہم بھی تو خدا تھے ہمیں کیوں نہ مانا گیا۔ [٥٧] اگرچہ ہر کام میں حد اعتدال سے آگے نکل جانے کو اسراف کہہ سکتے ہیں مگر یہاں مُسْرِفِیْنَ سے مرادوہ لوگ ہیں جو عاجز مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے اختیارات و تصرفات میں شریک بنا لیتے ہیں۔ ایسے مسرفین ہی وہ دوزخی ہیں جنہیں کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔