خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ
اس نے زمین و آسمان کو حق [٨] کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا۔ ہر ایک، ایک مقررہ وقت تک یونہی [٩] چلتا رہے گا۔ یاد رکھو! وہی سب پر غالب [١٠] اور بخش دینے والا ہے۔
[٨] یعنی زمین و آسمان یا کائنات کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا بلکہ اس میں بے شمار حکمتیں ہیں اور ان کی تخلیق سے کثیر مقاصد حاصل ہو رہے ہیں۔ [٩] گردش لیل ونہار میں دلائل توحید :۔ یعنی شام کے وقت اگر مغرب کی طرف نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ادھر سے اندھیرا اوپر کو اٹھ رہا ہے۔ جو بتدریج بڑھتا جاتا ہے۔ تاآنکہ سیاہ رات چھا جاتی ہے۔ اسی طرح صبح کے وقت اجالا مشرق سے نمودار ہوتا ہے۔ جو بتدریج بڑھ کر پورے آسمان پر چھا جاتا ہے۔ اور سورج نکل آتا ہے تو کائنات جگمگا اٹھتی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹا جارہا ہے۔ دن کو روشن کرنے اور رکھنے والی چیز سورج ہے۔ اور چاند رات کو روشنی دیتا ہے۔ یہ سورج اور یہ چاند جب سے پیدا کئے گئے ہیں۔ انسان کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور انسانوں کو ان سیاروں سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ نظام شمس و قمر بھی ابدی نہیں ہے۔ ایک وقت آئے گا جب ان کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ [١٠] اللہ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز سے زبردست اور ان سب پر غالب ہے جو ایسے عظیم الجثہ کروں سے اپنی حسب پسند کام لے رہا ہے اور وہ بخش دینے والا یہاں اس نسبت سے مذکور ہے کہ حضرت انسان نے اس دنیا میں جو فتنہ و فساد بپا کر رکھا ہے اس کا تو یہی تقاضا ہے کہ یہ نظام درہم برہم کرکے انسانوں کو تباہ کردیا جائے۔ مگر وہ عفو و درگزر سے کام لے رہا ہے۔