هَٰذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
(ہم نے ان سے کہا) یہ ہماری بخشش ہے۔ اب کسی پر احسان کرو یا [٤٥] اپنے پاس رکھو، کوئی حساب نہیں۔
[٤٥] جنوں پر سیدنا سلیمان کی حکمرانی :۔ یعنی جنوں کے معاملہ میں آپ کو مکمل اختیارات حاصل تھے کسی سے کام لیں یا نہ لیں۔ کسی کو معاوضہ دیں یا نہ دیں۔ یہ معاوضہ تھوڑا دیں یا زیادہ دیں۔ یہ سب کچھ آپ کی صوابدید پر منحصر تھا۔ اور اگر اس آیت کو عام سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے آپ کو بے پناہ مال و دولت عطا کی تھی۔ اور کہہ دیا تھا کہ اسے جیسے چاہو خرچ کرو آپ سے اس کا کچھ مؤاخذہ نہ ہوگا۔ اب ایک طرف اللہ تعالیٰ کے انعامات کا یہ حال ہے کہ بے حساب مال و دولت دے کر فرمایا کہ جیسے چاہو خرچ کرو آپ سے کوئی حساب نہیں لیا جائے گا۔ دوسری طرف سیدنا سلیمان علیہ السلام کا یہ حال تھا کہ اپنی ذاتی ضروریات کے لئے بیت المال سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے تھے بلکہ اپنے والد بزرگوار کی طرح اپنی کمائی سے کھاتے تھے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام تو زرہیں بنایا کرتے تھے اور آپ تانبے کی مصنوعات تیار کرتے تھے۔