إِذْ دَخَلُوا عَلَىٰ دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍ فَاحْكُم بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَىٰ سَوَاءِ الصِّرَاطِ
جب وہ داؤد کے پاس آپہنچے تو وہ انہیں دیکھ کر گھبرا [٢٥] گئے۔ وہ کہنے لگے ڈرو نہیں۔ ہم مقدمہ کے دو فریق [٢٦] ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے لہٰذا ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ کیجئے۔ اور زیادتی نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راہ بتائیے۔
[٢٥] ایک دن آپ علیہ السلام عبادت میں مصروف تھے اور یہ دن آپ کی عبادت کا دن تھا۔ اس دن آپ خلوت میں رہتے اور دربان کسی کو آپ کے پاس نہ آتے دیتے تھے۔ ناگہانی طور دو شخص دیوار پھاند کر آپ کے پاس آن کھڑے ہوئے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام یہ ماجرا دیکھ کر گھبرا گئے کہ یہ آدمی ہیں یا کوئی اور مخلوق ہے؟ آدمی ہیں تو انہیں اس وقت آنے کی کیسے ہمت ہوئی۔ دربانوں نے انہیں کیوں نہیں روکا۔ اتنی اونچی دیواروں کو پھاند کر کس نیت اور کس غرض سے آئے ہیں۔ اچانک یہ عجیب اور مہیب واقعہ دیکھ کر گھبرا گئے۔ [٢٦] دیوار پھاند کر اندر آنے والے دو شخص اور مقدمہ کی نوعیت :۔ اکثر مفسرین کا یہ خیال ہے کہ یہ آدمی نہیں بلکہ فرشتے تھے جو انسانی شکل میں آئے اور انہیں اللہ تعالیٰ نے سیدنا داؤد علیہ السلام کے پاس تنبیہ کے طور پر بھیجا تھا۔ جیسا کہ اگلے بیان سے واضح ہوتا ہے۔ انہوں نے آپ علیہ السلام کی گھبراہٹ کو محسوس کرلیا تو کہنے لگے کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ ہم دونوں میں ایک جھگڑا ہے۔ وہ سن کر آپ ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ کر دیجئے تاکہ کسی فریق پر زیادتی نہ ہونے پائے۔