فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنذَرِينَ
جب وہ عذاب ان کے آنگنوں میں اترے گا تو وہ صبح ان کے لئے بہت بری [٩٧] ہوگی جنہیں ڈرایا گیا ہے۔
[٩٧] کفار مکہ پر جو عذاب آتے رہے :۔ جس عذاب کے لئے کفار مکہ جلدی مچا رہے ہیں وہ آئے گا ضرور مگر اپنے مقرر وقت پر آئے گا۔ اور اس طرح آئے گا کہ ان کو یہ بھی معلوم نہ ہوسکے گا کہ کس طرف سے ان کی جڑ کٹ رہی ہے۔ چنانچہ جنگ بدر کے موقع پر ابو جہل کے سوا اکثر سرداروں کا یہ خیال تھا کہ ہمارا تجارتی قافلہ محفوظ نکل گیا ہے تو اب ہمیں جنگ نہ کرنا چاہئے مگر ابو جہل اکیلا اس بات پر مصر تھا کہ ہم میدان میں نکل آئے ہیں تو ہمیں اب اسلام کا سر کچل کے دم لینا چاہئے۔ مگر اس کا یہی اصرار اس کی اپنی موت اور کفر کی کمر توڑنے کا سبب بن گیا بالکل ایسی ہی صورت حال جنگ احزاب کے موقع پر پیش آئی اور فتح مکہ تو حقیقتاً کفر کی موت تھی۔ اس کے بعد اعلان براءت نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ اتنی دفعہ تو ان لوگوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عذاب آیا اور جوں جوں یہ لوگ عذاب سے دوچار ہوتے گئے۔ عذاب کے لئے جلدی مچانے کی باتیں از خود ہی ان کے دماغوں سے محو ہوتی گئیں۔ پہلا عذاب ہی دیکھنے کے بعد انہوں نے پھر کبھی عذاب مانگنے کا نام نہ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے دین حق کو اور بھی زیادہ فتح و نصرت عطا فرمائی۔ اور یہ فتح سیاسی بھی تھی اور اسلامی اقدار کی بھی۔