مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
روز ِ جزا [٨] و سزا کا مالک [٩] ہے
[٨] دین کے مختلف معانی :۔ دین کا لفظ قرآن میں مندرجہ ذیل چار معنوں میں استعمال ہوا ہے : (1) اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت اور اسی کا دوسرا پہلو یا لازمی نتیجہ ہے۔ (2) انسان کی مکمل عبودیت جیسے ارشاد باری ہے : ﴿فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ﴾(۳۹: ۲۔۳) ’’لہٰذا خالصتاً اسی کی عبادت کرو۔ سن لو مکمل حاکمیت خالصتاً اللہ ہی کے لئے ہے‘‘ ان دونوں آیات میں دین کا لفظ مذکورہ بالا دونوں معنی دے رہا ہے۔ (3) قانون سزا و جزاء یا تعزیرات جیسے ارشاد باری ہے : ﴿مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ ﴾(۷۶:۱۲)”اس (سیدنا یوسف علیہ السلام) کی شان کے لائق نہ تھا۔ ممکن نہ تھا کہ وہ بادشاہ کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو رکھ سکتا“(4) قانون سزا و جزاء کو نافذ کرنے کی قوت، جیسے ارشاد باری ہے : ﴿ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ تَرْجِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ (56: 86۔87)”پھر اگر تم سچے ہو اور قانون کی گرفت سے آزاد ہو تو (جب جان لبوں پر آجاتی ہے) اسے لوٹا کیوں نہیں لیتے؟“اور اس آیت میں دین کا لفظ مندرجہ بالا چاروں معنی دے رہا ہے۔ [٩] پہلی آیات میں اللہ کی معرفت کا ذکر تھا۔ اس ...... آیت میں روز آخرت پر ایمان اور روز آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عملی اقتدار و اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کے اچھے اعمال کا اچھا اور برے اعمال کا برا بدلہ دے گا۔ وہ ایسا بدلہ دینے کی اور اپنے اس فیصلہ کو نافذ کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ اعمال کے بدلہ کے سلسلہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے ضابطے اور قوانین ہیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر مذکور ہے۔ مثلاً یہ کہ نیکیوں کا بدلہ اللہ جسے چاہے گا بہت زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ مگر برائی کا بدلہ اتنا ہی دے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی۔ یا یہ کہ ایک کے جرم کی سزا دوسرے کو نہیں دی جائے گی۔ یا یہ کہ کوئی مجرم کسی صورت میں سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ وغیرہ وغیرہ اور ان سب چیزوں کا ذکر قرآن میں بہت سے مقامات پر آیا ہے۔