كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
ہم نیکی کرنے والوں [٦٥] کو ایسے ہی بدلہ دیا کرتے ہیں
[٦٥] مُحْسِنِیْنَ کا ترجمہ اردو میں ایک دو لفظوں میں ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ لہٰذا عموماً اس کا ترجمہ نیکی کرنے والے یا نیکو کار کردیا جاتا ہے۔ إحْسَانٌ کا مطلب دراصل کسی کام کو بہتر سے بہتر طریق پر سرانجام دینا ہے۔ جیسا کہ حدیث جبریل علیہ السلام سے واضح ہوتا ہے کہ جب سیدنا جبریل نے آپ سے یہ سوال کیا کہ إحْسَانٌ کیا چیز ہے۔ تو اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تو اللہ کی عبادت ایسے کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم اتنا تو سمجھے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘ (متفق علیہ) اور احسان میں کم از کم تین باتوں کا ہونا ضروری ہے (١) جو کام کیا جائے پوری خلوص نیت سے اور رضائے الٰہی کے لئے کیا جائے۔ (٢) حکم کی تعمیل محض اطاعت کے جذبہ سے نہ ہو بلکہ اس میں مطاع کی محبت کا جذبہ بھی شامل ہو۔ اور (٣) کام کے آداب و ارکان کو اس طریقہ پر سرانجام دیا جائے جو بہتر سے بہتر ہوسکتے ہیں۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے چونکہ ہر کام احسان کے ساتھ کیا تھا۔ لہٰذا اللہ نے دنیا میں انہیں دو طرح سے بدلہ دیا ایک یہ کہ رہتی دنیا تک ان پر سلامتی کی دعائیں کی جایا کریں۔ جیسا کہ ہم ہر نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر بھی درود و سلام کی دعا کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ اکثر مذاہب والے انہیں اپنا روحانی پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ ان سے نسبت جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کا ذکر اچھے الفاظ میں ہی کرتے ہیں۔