قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
تم نے خواب کو سچ [٦١] کر دکھایا' ہم یقیناً نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی [٦٢] صلہ دیا کرتے ہیں‘‘
[٦١] باپ بیٹے کا امتحان میں سرفراز ہونا :۔ جب باپ اور بیٹا دونوں نے اللہ کی فرمانبرداری کی بے نظیر مثال قائم کردی تو اس وقت رحمت الٰہی جوش میں آگئی۔ اور فوراً سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر وحی ہوئی کہ بس بس اس سے زیادہ کچھ نہ کرو۔ ہمیں تو صرف تمہارا امتحان لینا مقصود تھا۔ اور وہ ہوچکا جس میں تم پوری طرح کامیاب اترے ہو۔ ہمارا یہ مقصود ہرگز نہ تھا کہ تم فی الواقع بیٹے کو ذبح کر ڈالو۔ واضح رہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جو خواب دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ ’’میں ذبح کر رہا ہوں‘‘ یہ نہیں دیکھا تھا کہ ’’میں نے ذبح کردیا ہے‘‘ اور جتنا خواب آپ نے دیکھا تھا اتنا کام ہوچکا تو آگے ذبح کردینے سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا۔ [٦٢] یعنی ہمارا دستور ہے کہ ہم نیکو کار لوگوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں پھر جب وہ اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں، تو ان کے درجات بلند کرتے ہیں۔ ان کو فضیلت عطا کردیتے ہیں۔ پھر جس آزمائش میں ہم انہیں ڈالتے ہیں اس سے نکلوا بھی دیتے ہیں۔ جیسے سیدنا ابراہیم کو آگ کی آزمائش میں ڈالا وہ وہاں سے سلامت نکال بھی لائے اور ان کا مرتبہ بھی بلند کیا اسی طرح بیٹے کی قربانی کی آزمائش میں ان کے بیٹے کو بھی بچا لیا اور درجات بھی بلند کئے۔