فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ
پھر تمہارا پروردگار عالم کی نسبت کیا [٤٩] خیال ہے؟
[٤٩] سیدنا ابراہیم کی ستارہ پرست قوم :۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اصل وطن عراق کا شہر بابل تھا۔ یہ لوگ ستارہ پرست تھے۔ اور بالخصوص سات مشہور سیاروں سورج، چاند، زہرہ، عطارد، مشتری، مریخ اور زحل کی چال سے خوب واقف تھے۔ علاوہ ازیں یہ لوگ ان سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات کے بھی سختی سے قائل تھے۔ انہیں سیاروں کے الگ الگ مندر تعمیر کر رکھے تھے۔، جن میں ان سیاروں کے خیالی مجسمے یا بت رکھے جاتے تھے۔ وہ خود ہی زائچے تیار کرتے اور اس کے مطابق ان سیاروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کے مجسموں کے سامنے نذریں نیازیں پیش کی جاتی تھیں۔ انہیں زائچوں کے ذریعہ وہ آئندہ سے متعلق اپنی اپنی قسمت کا حال معلوم کرتے تھے۔۔ ان کے ستاروں کے اثرات پر اعتقاد کا یہ حال تھا کہ ان میں ہر شخص زائچہ تیار کرنے کے بغیر بھی سیاروں کی چال پر غور کرکے اپنا پروگرام بناتا تھا۔ اس قدر مشرک تھی یہ قوم جس میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ انہوں نے جب بالکل خالی الذہن ہو کر اور یکسو ہو کر اپنے آپ کو اپنے پروردگار کے حوالہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی۔ اور سیدنا ابراہیم کو اپنی مکمل فرمانروائی اور ان سیاروں اور ان کے مجسموں کے بالکل بے اختیار اور مجبور محض ہونے کی حقیقت واضح کردی۔ دعوت توحید کا آغاز اپنے باپ سے :۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے توحید کی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ سب سے پہلے باپ کو اس حقیقت سے روشناس کرایا وہ خود شاہی مندر کا پروہت، بت تراش اور بت فروش تھا وہ آپ کی اس نصیحت پر بگڑ بیٹھا تو آپ اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ کا اپنے باپ اور اپنی قوم سے سوال یہ تھا کہ تم یہ بت اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو پھر خود ہی انہیں خدائی اختیارات بانٹ دیتے ہو کہ فلاں سیارہ کی روح یا مجسمہ اگر ہم سے خوش رہے تو ہمیں مال و دولت زیادہ ملے گا۔ فلاں کی عبادت کی جائے تو علم نصیب ہوگا۔ اور فلاں کو خوش کیا جائے تو فصل بہت اچھی ہوگی۔ یہ سب اختیارات تو تم نے ان میں تقسیم کردیئے۔ اب بتاؤ کہ جس ہستی نے اس کائنات اور ان سیاروں کو پیدا کیا ہے اور اس کا ان پر کنٹرول ہے اس کے پاس بھی کوئی اختیار تم نے چھوڑا ہے یا نہیں؟ کیا اب وہ بالکل بے بس ہوچکا ہے؟ آخر اس کے متعلق تم کیا سمجھتے ہو؟