سورة آل عمران - آیت 93

كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ ۗ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بنی اسرائیل کے لیے کھانے پینے کی سب چیزیں حلال تھیں مگر وہ چیزیں جنہیں تورات کے نزول سے پیشتر اسرائیل (یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ آپ ان یہود سے کہئے کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو تورات لاؤ اور اس میں سے [٨٢] وہ عبارت پڑھو

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٢] یہود پرحرام شدہ اشیاء :۔ یہ دراصل یہود کے مسلمانوں پر ایک اعتراض کا جواب ہے۔ وہ مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ تم نے تو شریعت کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بنا رکھا ہے۔ تم لوگ اونٹ کا گوشت شوق سے کھاتے ہو اور اس کا دودھ بھی پیتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ چیزیں میں نے حرام نہیں کی تھیں بلکہ تورات کے نازل ہونے سے مدتوں پہلے یعقوب نے خود اپنے آپ پر حرام قرار دے لی تھیں۔ یعقوب نے ان چیزوں کو کیوں حرام قرار دے لیا تھا ؟ اس بارے میں کئی روایات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ انہیں ان چیزوں سے طبعاً کراہت تھی اور دوسری یہ کہ آپ کو عرق النساء کی بیماری تھی اور پرہیز کے طور پر آپ نے ایسا کیا تھا۔ پھر ان کی اتباع میں آپ کے پیروکاروں نے بھی ان چیزوں کو چھوڑ دیا اور فی الواقع انہیں حرام سمجھ لیا تھا۔ ان حرام کردہ چیزوں میں، بکری، گائے اور اونٹ کی چربی بھی شامل تھی۔ بائیبل کے جو نسخے آج کل متداول ہیں ان میں اونٹ، خرگوش اور سافان کی حرمت کا ذکر موجود ہے۔ (احبار ١١، ٤٠-٤١ استثناء ١٤: ٧) حالانکہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قرآن نے بطور چیلنج یہ بات کہی تھی کہ اگر تورات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر یہ چیزیں حرام کی گئی ہیں تو لاکر دکھاؤ اور یہود اس بات سے عاجز رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے اضافے کئے گئے ہیں کیونکہ اگر تورات میں اس وقت ایسے احکام موجود ہوتے تو یہود فوراً لاکر پیش کردیتے۔