فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا
پھر ان کی جو ذکر (قرآن) کی تلاوت کرنے والے [١] ہیں
[١] صفیں باندھے ہوئے فرشتے :۔ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس سورۃ کی ابتدائی تین آیات میں جن کی قسم اٹھائی گئی ہے ان سے مراد فرشتے ہیں اور اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم لوگ اس طرح صف باندھا کرو جس طرح فرشتے بارگاہ الٰہی میں صف بستہ رہتے ہیں۔ تم لوگ سب سے پہلے اگلی صف پوری کیا کرو اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوا کرو‘‘ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ) پہلی آیت میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو اللہ کے احکام کے منتظر اور اس کے دربار میں ہر وقت صف بستہ کھڑے رہتے ہیں اور یہی ان کی عبادت ہے کہ ادھر اللہ کا حکم ہو تو ادھر فوراً اسے بجا لائیں۔ دوسری آیت میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو تدبیر امور کائنات پر مامور ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ اس لئے کرتے ہیں کہ جلد سے جلد اللہ کا حکم بجا لائیں۔ ڈانٹنے ڈپٹنے سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسی دوسری قسم کے فرشتوں میں وہ گروہ بھی شامل ہے جو مجرموں اور نافرمانوں پر لعنت اور پھٹکار کرتے ہیں۔ اور انسانوں پر جو حوادث یا عذاب آتے ہیں انہی کے واسطہ سے آتے ہیں۔ اور تیسرے گروہ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو خود بھی اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں اور انسان کی روحانی غذا یا ہدایت کا واسطہ بھی بنتے ہیں۔ پیغمبروں پر اللہ کا حکم لاتے ہیں اور نیک لوگوں کے دلوں میں القاء و الہام کرتے ہیں۔