سورة آل عمران - آیت 86

كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ایسے لوگوں کو اللہ کیونکر ہدایت دے سکتا ہے جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا ؟ حالانکہ وہ خود گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور ان کے پاس اس بات کے واضح دلائل بھی آچکے ہیں؟ اور اللہ تعالیٰ ایسے [٧٥۔ ١] ناانصاف لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٧٥۔ ١] اہل کتاب کا اندھاتعصب : اس آیت کے مخاطب ہٹ دھرم اور متعصب قسم کے اہل کتاب ہیں۔ خواہ وہ یہودی ہوں یا نصاریٰ، یہ دونوں فریق آنے والے نبی کے منتظر تھے۔ کیونکہ نبی آخرالزمان کی بشارت تورات میں بھی موجود تھی اور انجیل میں بھی۔ لیکن جب وہ رسول مبعوث ہوگیا تو ان لوگوں نے اس پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہود یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمارے مذہب کی تائید کرے گا۔ اور عیسائی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ یہود کے مقابلہ میں ان کا ساتھ دے گا۔ لیکن جب ان کی یہ تمنا بر نہ آئی تو انہوں نے انکار کردیا۔ پھر انہی یہود و نصاریٰ میں کچھ ایسے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے جنہوں نے برملا شہادت دی کہ یہ وہی رسول ہے جس کی شہادت ہماری کتابوں میں موجود ہے اور وہ ایمان بھی لے آئے۔ متعصب لوگوں پر اس کا بھی کچھ اثر نہ ہوا۔ پھر نبی آخر الزمان میں انہوں نے کئی ایسی نشانیاں بھی دیکھیں جو ان کی تسلی کے لیے بہت کافی تھیں۔ ان نشانیوں میں کچھ تو وہ تاریخی قسم کے سوالات تھے جو علمائے اہل کتاب یہ سمجھتے تھے کہ ان کے جوابات ان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر جب انہوں نے امتحان کے طور پر آپ سے وہ سوالات پوچھے تو آپ نے ان کے کافی و شافی جواب دے دیئے اور یہ بات وحی الٰہی کے علاوہ ممکن نہ تھی۔ علاوہ ازیں قرآن نے کچھ پیشین گوئیاں کی تھیں جو ان کی آنکھوں کے سامنے یا خود ان پر پوری ہو رہی تھیں۔ پھر بھی یہ لوگ اپنے تعصب کی بنا پر ایمان لانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کو زبردستی کبھی ہدایت نہیں دیا کرتا۔ اس طرح کی زبردستی اس کے دستور کے خلاف ہے۔