قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ۜ ۗ هَٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ
کہیں گے :’’افسوس! ہمیں ہماری خواب گاہ سے کس [٤٩] نے اٹھا کھڑا کیا ؟‘‘ یہ تو وہی چیز ہے جس کا رحمٰن [٥٠] نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا
[ ٤٩] دوسری مرتبہ صور پھونکنے کا اثر :۔ نفخہ صور اول سے تمام لوگ بے ہوش ہوجائیں گے اور اسی بے ہوشی کے عالم میں ہی ان کی موت واقع ہوگی۔ پھر جب دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو وہ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ کیا حادثہ پیش آیا تھا اور وہ اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ جیسے کسی شخص کا بس سے ایکسیڈنٹ ہوجائے تو وہ بے ہوش ہوجائے۔ اور اسے ہسپتال پہنچا دیا جاتا ہے۔ پھر جب وہ کچھ مدت بعد ہوش میں آتا اور آنکھیں کھولتا ہے تو اس وقت وہ یہ دیکھتا ہے کہ میں اس وقت کہاں ہوں اور کیسے یہاں پہنچ گیا ہوں؟ اسے اپنی بے ہوشی کی بھی کچھ خبر نہیں ہوتی یہی حال ان لوگوں کا ہوگا۔ وہ بالکل اجنبی اور دہشت ناک ماحول دیکھ کر پہلی بات جو کریں گے وہ یہ ہوگی کہ ہم تو آرام سے پڑے سو رہے تھے ہمیں کس نے جگا دیا ہے؟ انہیں کچھ اپنی موت سے پہلے کی کوئی خبر ذہن میں آئے گی نہ عذاب قبر کی۔ وہ قیامت کی ہولناکیوں کے مقابلہ میں اسے بھی بس ایک خواب ہی سمجھیں گے۔ [ ٥٠] اس جملہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب وہ اس ماحول کو سمجھنے کے لئے اپنے ذہن پر زور ڈالیں گے تو انہیں از خود یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ تو وہی چیز ہے جو رسول ہمیں کہا کرتے تھے اور ہم اس کا انکار کردیا کرتے تھے۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کی اس سراسیمگی کی حالت میں اہل ایمان یا فرشتے انہیں مطلع کریں گے کہ یہی وہ دن ہے جس کا اللہ نے تم لوگوں سے وعدہ کیا تھا اور جب بھی رسول تمہیں اللہ کے اس وعدہ اور اس قیامت کے دن سے ڈراتے تھے تو ہر بار تم یہی کہہ دیتے تھے کہ وہ کب ہوگا سو آج اپنی آنکھوں سے وہ دن دیکھ لو۔