وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
اور سورج اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل [٣٦] رہا ہے۔ یہی زبردست علیم ہستی کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔
[ ٣٦] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح فضا میں دوسرے تمام سیارے اپنے اپنے مدار پر گردش کررہے ہیں اسی طرح سورج بھی اپنے مدار یا اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل رہا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر غالب اور اپنی مخلوقات کے تمام تر حالات سے واقف ہے، چاہے گا یہ سورج اسی طرح اپنی مقررہ گزر گار پر چلتا رہے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سورج کا عرش الٰہی کے نیچے سجدہ ریز ہونا :۔ ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : ’’جانتے ہو کہ سورج غروب ہونے کے بعد کہاں جاتا ہے؟‘‘ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سورج غروب ہونے پر اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوتا ہے اور دوسرے دن طلوع ہونے کا اذن مانگتا ہے تو اسے اذن دے دیا جاتا ہے پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ اس سے کہا جائے گا کہ جدھر سے آیا ہے ادھر ہی لوٹ جا۔ پھر وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی‘‘ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب وکان عرشہ علی الماء) اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ سورج اور اسی طرح دوسرے سیاروں کی گردش محض کشش ثقل اور مرکز گریز قوت کا نتیجہ نہیں بلکہ اجرام فلکی اور ان کے نظام پر اللہ حکیم و خبیر کا زبردست کنٹرول ہے کہ ان میں نہ تو تصادم و تزاحم ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی مقررہ گردش میں کمی بیشی ہوتی ہے اور یہ سب اجرام اللہ کے حکم کے تحت گردش کر رہے ہیں دوسرے یہ کہ قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا اس کے بعد نظام کائنات بگڑ جائے گا۔ آج کا مغرب زدہ طالب علم سورج کے طلوع و غروب ہونے اور عرش کے نیچے جاکر دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگنے کا مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ سورج تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمیں جو طلوع و غروب ہوتا نظر آتا ہے تو یہ محض زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے حالانکہ اللہ کا عرش اتنا بڑا ہے کہ ایک سورج کی کیا بات ہے کائنات کی ایک ایک چیز اس کے عرش کے تلے ہے اور جن و انس کے سوا ہر چیز اس کے ہاں سجدہ ریز یا اللہ کی طرف سے سپرد کردہ خدمت سرانجام دینے پر لگی ہوئی ہے۔