سورة يس - آیت 35

لِيَأْكُلُوا مِن ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

تاکہ وہ اس کے پھل کھائیں حالانکہ یہ سب کچھ ان [٣٣] کے ہاتھوں نے نہیں بنایا۔ پھر کیا وہ شکر ادا نہیں کرتے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٣٣] وما عملتہ ایدیھم کے مختلف مفہوم۔۔ زرعی پیداوار میں انسان کا حصہ :۔ ﴿وَمَا عَمِلَتْہُ أیْدِیْھِمْ﴾ میں اگر ما کو نافیہ قرار دیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا۔ نباتات کو پیدا کرنا انسان کا کام نہیں۔ نباتات اور پھلوں کی پیدائش میں جس قدر عناصر سرگرم عمل ہیں وہ سب کے سب اللہ کے حکم کے تحت اپنے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں تب جاکر نباتات وجود میں آتی، بڑھتی، پھلتی پھولتی اور انسانوں اور دوسرے جانداروں کا رزق بنتی ہے۔ اور مَا کو موصولہ قرار دیا جائے تو پھر اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اگرچہ نباتات کو وجود میں لانے والے سارے عناصر اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔ تاہم اس میں کچھ نہ کچھ کام انسانوں کا بھی ہوتا ہے۔ مثلاً انسان بیج ڈالتا ہے، ہل چلاتا ہے، زمین کی سیرابی اور فصل کی نگہداشت کرتا ہے، لیکن اگر وہ غور کرے تو انسان کی یہ استعداد بھی اللہ ہی کا عطیہ ہے۔ اور انسان کے اتنا کام کرنے کے بعد بھی نباتات تب ہی اگ سکتی ہے جب پیداوار کے بڑے بڑے وسائل انسان کی اس حقیر سی کوشش کا ساتھ دیتے ہیں۔ لہٰذا اللہ کا شکر بہرحال واجب ہوا۔ تمام خوردنی اشیاء کی اصل زرعی پیداوار ہے :۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہی اصل اشیاء ہیں پھر انسان ان پر محنت کرکے بعض دوسری اشیائے ضرورت تیار کرلیتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے گندم، گنا، چنے اور دودھ پیدا کیا ہے۔ اب انسان ان سے کچھ چیزیں انفرادی طور پر حاصل کرتا ہے۔ مثلاً گندم سے روٹی، اور اس کی قسمیں اور گنے سے گڑ، شکر اور چینی اور دودھ سے دہی، مکھن، لسی، بالائی اور گھی وغیرہ پھر انہیں چیزوں کے امتزاج سے ہزاروں چیزیں بناتا چلا جاتا ہے۔ اور کئی طرح کے سالن، اچار، چٹنیاں، مربے، مٹھائیاں وغیرہ تیار کرلیتا ہے۔ کئی چیزوں سے اپنی پوشاک کی ضروریات بناتا ہے یہ استعداد بھی انسان کو اللہ ہی نے بخشی ہے۔ لہٰذا ہر حال میں اللہ کا شکر واجب ہوا۔