وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا
اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کے مطابق ان کا مواخذہ کرتا تو سطح زمین پر کوئی جاندار [٥٢] (زندہ) نہ چھوڑتا لیکن وہ تو ایک مقررہ وقت تک انہیں ڈھیل دیے جاتا ہے۔ پھر جب ان کا وہ مقررہ وقت آجائے گا تو اللہ یقیناً اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے (وہ ان سے نمٹ لے گا)
[ ٥٢] دنیا دارالعمل ہے دارالجزاء نہیں۔ ورنہ زمین پر کوئی جاندار زندہ نہ رہ سکتا :۔ انسان اور جن کے علاوہ دوسرا کوئی جاندار نہ شریعت کا مکلف ہے اور نہ اللہ کا نافرمان ہوتا ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ اصل مجرم تو انسان ہے۔ مگر اس کی سزا سے دوسرے جاندار بیچارے مفت میں مار کھاتے ہیں جیسے گندم کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ مثلاً انسانوں کے جرم کی پاداش میں اگر اللہ تعالیٰ بارش روک دے تو دوسرے جاندار بھی بے چارے پانی کی نایابی کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مر جائیں گے۔ اسی طرح اگر سیلاب آجائے یا زلزلہ آجائے تو متاثرہ علاقہ کے جاندار بھی متاثر ہوں گے اور مرجائیں گے۔ مجرم انسانوں کو فوری طور پر گرفت نہ کرنے اور انہیں ڈھیل دینے میں اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کی کیا مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ بے زبان جانوروں کی فریاد کی وجہ سے ہی مجرموں پر عذاب نہ بھیج رہا ہو۔ بہرحال یہ مہلت بھی ایک مقررہ وقت تک ہی ہے۔ انفرادی لحاظ سے یہ مہلت ہر انسان کی موت کا وقت ہے۔ اور اجتماعی لحاظ سے کسی قوم پر اللہ کے عذاب کا یا قیامت کا وقت ہے۔ اس مقررہ وقت کے بعد محاسبہ کا وقت ہے۔ کوئی مجرم نہ اس سے چھپ سکے گا نہ بھاگ سکے گا۔ اور اس کا یہ محاسبہ حق و انصاف پر مبنی ہوگا کیونکہ وہ اپنے بندوں کے ایک ایک عمل اور ان کی ایک ایک حرکت کو خود دیکھ رہا ہے۔