ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ
پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب [٣٧] کا وارث بنایا جنہیں ہم نے (اس وراثت کے لئے) اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ پھر ان میں سے کوئی تو اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے۔ کوئی میانہ رو ہے اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والا ہے۔ یہی بہت بڑا فضل ہے۔
[ ٣٧] اعمال کے لحاظ سے تین قسم کے مسلمان اور ان کا انجام :۔ اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ اس کے اولین وارث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہے۔ اس آیت سے ان کی بہت فضیلت ثابت ہوئی۔ پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ اور نسل بعد نسل آپ کی ساری امت بھی اس کتاب کی وارث ہے۔ پھر ان وارثوں کے تین طبقات ہیں یا تین قسم کے گروہ ہیں۔ ایک وہ جو اپنے نفس پر ظلم کر رہے ہیں۔ یعنی وہ اللہ کے باغی نہیں ہیں مشرک بھی نہیں ہیں۔ کتاب وسنت کی اتباع کے داعی بھی ہیں۔ مگر ان کے اعمال ان کے دعوے کی پوری طرح تصدیق نہیں کرتے۔ وہ خطا کار ضرور ہیں مگر اپنے جرائم پر نادم ضرور ہوتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو نیک اعمال بجا لارہا ہے تاہم کبھی کبھار ان سے گناہ کے کام بھی ہوتے ہیں۔ یہ درمیانہ درجہ کے لوگ ہیں۔ اور ایک وہ لوگ ہیں جو ہر نیکی کے کام کی طرف آگے بڑھ کر لپکتے ہیں۔ ان کی آرزو یہ رہتی ہے کہ جتنی زیادہ بھلائیاں سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیں۔ وہ گناہوں سے اجتناب میں بھی ممکن حد تک احتیاط کرتے ہیں۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تینوں قسم کے لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور ان میں فرق یہ ہوگا کہ افضل قسم کے لوگ بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے۔ درمیانہ طبقہ سے حساب تو لیا جائے گا مگر یہ آسان سا اور سرسری قسم کا حساب ہوگا اور زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔ اور تیسرے درجہ کے لوگوں کو روک لیا جائے گا اور قیامت کا سارا دن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوسکیں گے۔ پھر اس مدت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ ان پر مہربانی فرمائے گا اور انہیں بھی داخلہ کی اجازت مل جائے گی۔ تاہم یہ قیامت کے دن کی سختیاں ضرور برداشت کریں گے اور اللہ کا فضل تو ان سب پر ہوگا۔