وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ
(اے نبی!) جو کتاب ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے وہی حق [٣٦] ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے باخبر اور انہیں دیکھنے والا ہے۔
[ ٣٦] قرآن کے حق ہونے کا مطلب زندگی کے حقائق کا لحاظ رکھنا ہے :۔ وہ حق اس لئے ہے کہ وہ اس ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جس نے انسان کو بنایا ہے۔ جتنا وہ انسان کی فطرت سے واقف ہوسکتا ہے دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس کتاب کے جملہ احکام و ارشادات انسان کی فطرت کے مطابق بھی ہیں اور پوری انسانیت کے مصالح پر مبنی ہیں۔ اور بنی نوع انسان کی فلاح کے ضامن بھی ہیں۔ وہ ذات اپنے بندوں کی فطرت اور ان کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے۔ اسی لئے اس کے بعض احکام تو غیر متبدل اور دائمی ہیں جو سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ اسی لحاظ سے یہ قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے۔ اور بعض نئے احکام بھی ہیں۔ بعض میں تبدیلی بھی کی گئی ہے اور یہ سب کچھ بندوں کے حالات کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ پھر وہ اپنے کمزور اور معذور بندوں کو رخصتیں بھی عطا فرماتا ہے۔ اور حالات کے مطابق احکام میں رعایتیں بھی ملحوظ رکھتا ہے اس لئے کہ وہ اپنے سب بندوں کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے۔