أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا ۚ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے ہم رنگا رنگ [٣٢] کے پھل پیدا کرتے ہیں۔ اور پہاڑوں میں بھی مختلف رنگوں کی سفید سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔
[ ٣٢] ہر قسم کی مخلوق میں تنوع بھی ہے فوائد بھی اور خوبصورتی بھی :۔ یہ دو آیات اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی طرف ہر انسان کی توجہ مبذول کراتی ہیں۔ یعنی زمین ایک ہے پانی ایک ہے، ہوا ایک ہے۔ لیکن نباتات جو اگتی ہے ان کی شکلیں مختلف رنگ مختلف اور پھول ہیں تو خوشبوئیں مختلف ہوتی ہیں۔ گلاب کے پھول کی رنگت، ساخت اور خوشبو، لالہ کے پھول سے مختلف ہے اسی طرح چنبیلی کے پھول، نیلوفر اور سورج مکھی کے پھول بھی آپس میں مختلف ہیں۔ پھر ایک ہی پھول میں کئی رنگوں کی آمیزش کچھ ایسی خوبصورتی سے ترکیب دی گئی ہے جو فوراً دل کو موہ لیتی ہے اور اگر پھل پیدا ہوتے ہیں تو انگور کی شکل، رنگ، ذائقہ، اور خواص اور ہوں گے۔ سیب کے اور کھجور کے اور آم کے اور۔ پھر مثلاً آم ہی کو یا کھجور کو لیجئے۔ اس جنس کی آگے بے شمار انواع ہیں۔ اور ہر نوع میں ایسی امتیازی خصوصیات موجود ہیں کہ انسان یہ معلوم کرلیتا ہے کہ یہ کھجور یا آم فلاں قسم سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر یہ تنوع صرف پھولوں، پھلوں اور سبزیوں میں نہیں بلکہ جمادات کی طرف دیکھو تو وہاں بھی اللہ کی یہ قدرت کار فرما نظر آئے گی کہیں خشک کالے مٹیالے اور سیاہ پہاڑ ہیں۔ کہیں پہاڑوں پر بلند و بالا درخت اور سبزہ اگ کر نہایت خوشما منظر پیش کر رہا ہے۔ کہیں نمک کا پہاڑ ہے کہیں سنگ مرمر کا پہاڑ ہے۔ پھر ایک ہی پہاڑ میں کہیں سیاہ دھاریاں دور تک چلی گئی ہیں۔ کہیں سپید ہیں اور کہیں سرخ۔ اب جانداروں کی طرف آئیے تو یہاں بھی ہم یہی منظر دیکھتے ہیں۔ مویشیوں میں سے ایک جنس کے کئی کئی رنگ ہیں انسانوں کا بھی یہی حال ہے کچھ گورے ہیں کچھ سفید ہیں کچھ سرخ ہیں کچھ کالے اور کچھ سانولے ہیں۔ حالانکہ ان کی پیدائش اور ترکیب کے اجزاء و عناصر پر غور کیا جائے تو وہ سب یکساں ہی ہوتے ہیں اس کے باوجود ہر جنس میں اللہ تعالیٰ نے اتنے لاتعداد نئے سے نئے ڈیزائن تیار کردیئے ہیں جنہیں دیکھ کر ہی عقل دنگ رہ جاتی ہے یہ یکسانیت میں اختلافات اور اختلافات میں یکسانیت، یہ مختلف رنگ اور ان رنگوں کا حسین امتزاج ان میں توازن و تناسب اور ان سب باتوں کے باوجود ان سب چیزوں میں انسان کے لئے خوشنمائی اور دلفریبی پھر ان میں سے ہر چیز کا انسان کے لئے مفید اور کارآمد ہونا کیا یہ سب چیزیں کسی عظیم مدبر اور حکیم صناع کی طرف رہنمائی نہیں کرتیں؟ کیا یہ سب باتیں اتفاقات کا نتیجہ قرار دی جاسکتی ہیں؟ علم صرف وہ مفید ہے جس سے اللہ کا خوف پیدا ہو اور حقیقی عالم وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا بھی ہو :۔ ایک باشعور انسان جب ان باتوں میں غور کرتا ہے تو اس صانع حقیقی کی عظمت اس کے دل میں جاگزیں ہوتی جاتی ہے۔ اسے اس ہستی سے محبت ہوجاتی ہے۔ جو اتنی قدرتوں کی مالک ہے پھر اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے میں اسے مزا آنے لگتا ہے اور یہی وہ نتیجہ ہے جسے قرآن ان الفاط میں پیش کرتا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف عالم لوگ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ اور اس جملہ سے کئی باتیں مستفاد ہوتی ہیں مثلاً۔ ١۔ جتنا بھی ان مظاہر قدرت میں غور و فکر کیا جائے گا اتنی اس سے اللہ کی معرفت پیدا ہوگی اور اتنی ہی اللہ کی خشیت پیدا ہوگی۔ ٢۔ علوم کی بھی تین قسمیں ہیں ایک وہ علم جس سے اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے یہ علم کا اعلیٰ درجہ ہے۔ خواہ ایسا شخص اصطلاحی معنوں میں پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو۔ دوسرے وہ علوم ہیں جو خشیت تو پیدا نہیں کرتے تاہم انسانیت کے لئے مفید ہیں جیسے حساب اور مختلف زبانوں کا علم ان پر بھی علم کا اطلاق ہوسکتا ہے اور جو علم اللہ سے دور کردے وہ علم نہیں بلکہ ضلالت ہے۔ ٣۔ کیا علماء سے مراد سائنٹسٹ ہیں؟ ہر شخص اللہ کی آیات میں غور کرنے کے بعد ایک ہی نتیجہ پر نہیں پہنچتا مثلاً پرویز صاحب انہی آیات کا نتیجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ’’ان آیات میں نباتات، جمادات اور حیوانات کا ذکر ہے اور یہی چیزیں علم سائنس کی بڑی بڑی شاخیں ہیں لہٰذا ان علوم کے ماہر ہی حقیقتاً ''عالم'' ہیں۔ جنہیں آج کی اصطلاح میں سائنٹسٹ کہا جاتا ہے۔''(اسباب زوال امت ص ٩٥) اب ان حضرات سے سوال یہ ہے کہ کیا یہ عالم یا سائنٹسٹ حضرات اللہ سے ڈرتے بھی ہیں؟ اصل شرط تو خشیۃ اللّٰہ ہے نہ کہ ان علوم میں مہارت۔ اگر وہ ڈرتے بھی ہیں تو پھر وہ فی الواقع عالم ہیں۔ ورنہ نہیں۔ ٤۔ اس آیت میں لفظ علماء سے مراد وہ اصطلاحی علماء بھی مراد نہیں ہیں جو قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کا علم رکھنے کی بنا پر علمائے دین کہلاتے ہیں وہ اس آیت کے مصداق صرف اس صورت میں ہوں گے جبکہ ان کے اندر اللہ کی خشیت موجود ہو۔