يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ
وہ رات کو دن اور دن کو رات [١٩] میں داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ہے۔ ہر ایک' ایک مقررہ مدت تک چلتا رہے گا۔ یہ ہے اللہ (کی شان) جو تمہارا پروردگار ہے۔ اسی کی بادشاہی ہے اور اسے چھوڑ کر جنہیں تم پکارتے ہو وہ تو ایک پرِکاہ کا بھی اختیار نہیں رکھتے
[ ١٩] دن اور رات کے نظام میں تدریج :۔ یعنی جب سورج نکلنے کے قریب ہوتا ہے تو سب سے پہلے روشنی کی ایک لکیر آسمان پر نمودار ہوتی ہے یہ دن کا آغاز ہے۔ پھر یہ روشنی پھیلنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور ہر چیز نظر آنے لگتی ہے پھر سورج نکلتا ہے تو روشنی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے حتیٰ کہ دوپہر ہونے تک اس کی روشنی بڑھتی ہی جاتی ہے اور اس میں حرارت اور شدت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے پھر زوال کا وقت شروع ہوتا ہے تو اسی طرح بتدریج گرمی میں اور روشنی میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ حتیٰ کہ غروب آفتاب کے کچھ عرصہ بعد روشنی ختم ہوجاتی ہے تو اس کی جگہ تاریکی بڑھنے لگتی ہے اور یہ سب کچھ اس طرح آہستہ آہستہ اور تدریج کے ساتھ واقع ہوتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹا جارہا ہے۔ رات اور دن دونوں ایک دوسرے کے اندر آہستہ آہستہ داخل ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس رات اور دن کی آمدورفت میں سورج کو بڑا دخل ہے۔ رات کو سورج کی جگہ چاند اہل زمین کو روشنی مہیا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رات اور دن کا یہ نظام نہ بناتا تو بھی کوئی چیز زندہ نہ رہ سکتی تھی اور نہ ہی کوئی نباتات وغیرہ اگ سکتی تھی۔ اور یہ نظام کائنات تاقیامت مسلسل اسی طرح برقرار رہے گا۔ اور جب اس کی بساط لپیٹ دی جائے گی تو اسی کا نام قیامت ہے۔ یہ سب کارنامے تو پروردگار حقیقی کے ہیں اس لئے وہ تو بندگی کا صحیح مستحق ہے۔ اب تم بتاؤ کہ تمہارے معبودوں نے تمہارے لئے کون کون سی فائدہ بخش چیزیں پیدا کی ہیں؟ اور اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر ان کا اس کائنات میں تصرف اور اختیار کہاں سے آگیا ؟