وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
اللہ نے تمہیں مٹی سے، پھر نطفہ سے پیدا کیا ہے پھر تمہیں جوڑے جوڑے [١٧] بنایا۔ جو بھی مادہ حاملہ ہوتی یا بچہ جنتی ہے تو اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے۔ اور کوئی بڑی عمر والا جو عمر دیا جائے یا اس کی عمر کم کی جائے تو یہ سب کچھ کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لئے یہ بات بالکل آسان ہے۔
[ ١٧] جنین پر وارد ہونے والے تغیرات اور اللہ تعالیٰ کی انفرادی توجہ :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مٹی کے چند اجزاء سے آدم کا پتلا بنایا۔ پھر اس میں اپنے ہاں سے روح پھونکی، تو یہی مٹی کے اجزا، گوشت پوست، ہڈیوں اور عضلات میں تبدیل ہوگئے پھر صرف اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ اس میں اللہ کی اپنی کئی صفات بھی منعکس ہوگئیں وہ بولنے لگا۔ دیکھنے اور سننے لگا، سمجھنے لگا اس میں عقل پیدا ہوگئی۔ فہم و تدبر پیدا ہوگیا اور استنباط کا ملکہ پیدا ہوگیا۔ پھر آگے جو اس کی نسل چلی تو اس کے نطفہ سے چلی۔ یہ نطفہ کیا تھا، مٹی کے بے جان عناصر سے ہی حاصل شدہ چیز تھی۔ اور اس حقیر سے قطرہ میں اس انسان کے کثیر خواص منتقل ہوگئے جس کا یہ نطفہ تھا پھر اسی نطفہ سے اللہ نے جنس انسان کو مرد اور عورت کی دو نوعوں میں تبدیل کردیا۔ غرضیکہ اللہ کے عجائبات کا کہاں تک ذکر کیا جائے۔ مزید حیران کن بات یہ ہے کہ رحم مادر میں اللہ تعالیٰ ہر پیدا ہونے والے بچے کی طرف انفرادی توجہ مبذول فرماتے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا کیا تغیرات واقع ہوتے ہیں جن کا اس کی ماں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ جس کے پیٹ میں یہ جنین ہوتا ہے پھر اس دوران ہر نومولود کی عمر بھی طے کردی جاتی ہے کہ وہ کس عمر میں مرے گا، اسے رزق کتنا ملے گا اور اس کا انجام کیسا ہوگا۔ گویا یہ آیت اللہ تعالیٰ کی خالقیت، اس کے لامحدود اور ہر چیز پر مکمل تصرف پر روشنی ڈالتی ہے۔