قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ
آپ کہئے کہ حق آگیا اور باطل [٧٤] نے تو نہ پہلی بار کچھ پیدا کیا تھا نہ دوبارہ کچھ کرسکے گا۔
[ ٧٤] جھوٹ کےپاؤں نہیں ہوتے:۔یہاں باطل سے بعض لوگوں نے مراد معبودان باطل لیا ہے۔ یعنی ان باطل معبودوں نے کائنات میں پہلے بھلا کون سی چیز پیدا کی تھی کہ اب وہ دوبارہ وہ کچھ کرسکیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ معبود قطعی بے اختیار اور مجبور محض ہیں۔ تم لوگ ان سے خواہ مخواہ ہی کئی طرح کی توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہو۔ اور اگر باطل کو اپنے ہی معنوں میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ باطل کو کبھی استقلال نصیب نہیں ہوتا۔ جسے ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ کسی بھی بات کی تحقیق شروع کرو۔ باطل کو فوراً وہاں سے رخصت ہونا پڑے گا۔ باطل کی ضد حق ہے۔ یعنی جوں جوں حق آ جاتا ہے، باطل از خود رخصت ہوتا چلا جاتا ہے۔ فتح مکہ کے دن جب آپ اپنی چھڑی سے بتوں کو گرا رہے تھے تو اس وقت ساتھ ساتھ یہ آیت بھی پڑھتے جاتے تھے۔ ﴿ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا ﴾