قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ
آپ ان سے کہئے کہ : میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطے [٧٠] تم دو دو مل کر اور اکیلے اکیلے رہ کر خوب سوچو کہ آیا تمہارے صاحب ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کوئی جنون کی بات ہے؟ وہ تو محض ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں ڈرانے والا [٧١] ہے۔
[ ٧٠] حجراسودکونصب کرنےکاجھگڑاختم کرنا آپ کی دانشمندی پردلیل ہے:۔یعنی میری صرف ایک بات مان لو۔ ضد اور تعصب کو چھوڑ کر پوری نیک نیتی سے یہ بات سوچو، اکیلے اکیلے بھی سوچو، دو دو اور اس سے زیادہ بھی مل بیٹھ کر اور سر جوڑ کر اس بات پر غور کرو کہ جو جو الزام تم مجھ پر لگا رہے ہو کیا وہ درست ہیں؟ اور تم جو کچھ کہہ رہے ہو نیک نیتی سے کہہ رہے ہو؟ میری بچپن سے لے کر آج تک کی زندگی سے تم خوب واقف ہو۔ میری صداقت اور میری دیانت کے تم آج تک قائل رہے ہو۔ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ آج سے چند ہی برس پیشتر تعمیر کعبہ کے دوران جب تم میں حجر اسود کو رکھنے کے مسئلہ پر تم میں تنازعہ پیدا ہوگیا تھا تو تم نے کہا تھا کہ صبح جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوگا تم اسے حکم تسلیم کرلو گے۔ پھر جب میں صبح کعبہ میں آیا تو تم سب نے برضا و رغبت مجھے حکم تسلیم کرنے پر اتفاق کرلیا تھا۔ پھر جب میں نے ایک چادر بچھا کر اس پر حجر اسود رکھ دیا اور تم سب کو کو نوں سے چادر اٹھانے کو کہا تھا پھر مطلوبہ بلندی پر پہنچنے پر میں نے حجر اسود خود اٹھا کر اس مقام پر رکھ دیا تھا۔ تو تم سب نے نہ صرف یہ کہ میرے فیصلہ کو برضا و رغبت تسلیم کرلیا تھا بلکہ میری دانشمندی کی داد بھی دی تھی اور آج تم ہی لوگ ہو جو مجھے دیوانہ کہتے ہو، کبھی یہ کہتے ہو کہ میں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے اور کبھی یہ کہتے ہو کہ میں قرآن خود بنا کر تمہیں دھوکا دے رہا ہوں۔ خدارا کچھ تو انصاف کی بات کرو۔ [ ٧١] کیا تمہارے خیال میں میں اس لئے دیوانہ ہوں کہ تمہیں یہ بتلا رہا ہوں جو طریق زندگی تم نے اپنا رکھا ہے وہ غلط ہے۔ اور اس کے برے انجام سے ڈرا رہا ہوں۔ اور اگر میں یہ کہہ دیتا کہ شاباش! تم لوگ بہت ٹھیک جارہے ہو تب تو سب معاملہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ اور اگر میں تمہیں چند ٹھوس حقائق کی اطلاع دیتا ہوں تو تم مجھے دیوانہ کہنے لگے ہو۔