وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ
اور جس دن اللہ تمام انسانوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں [٦٢] سے پوچھے گا :’’کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیا کرتے تھے؟‘‘
[ ٦٢]بت پرستی اور قبر پرستی میں قدرمشترک :۔ مشرکین خواہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوں یا اس سے پہلے ادوار کے یا مابعد کے دور کے، وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم ان بتوں کو پوجتے ہیں یا ان قبروں کو پوجتے ہیں۔ بلکہ ان کے اعتقاد کے پیچھے ان کا ایک پورا گھڑا ہوا فلسفہ ہوتا ہے۔ مثلاً سورج کی پوجا کرنے والا پہلے سورج کی روح کا ایک خیالی نقشہ یا تصویر قائم کرتے ہیں پھر اس خیالی تصویر کے مطابق اس کا مجسمہ بناتے ہیں۔ پھر یہ سمجھتے ہیں کہ اس مجسمہ کے ساتھ سورج کی روح کا بروقت تعلق قائم رہتا ہے اور ہم جو سورج کے مجسمہ کو پوجتے ہیں تو یہ دراصل اس بت کی نہیں بلکہ ہم سورج دیوتا کی عبادت کرتے ہیں۔ مشرکین نے اس طرح کے کئی دیویاں اور دیوتا بنا رکھے تھے۔ پھر یہ مجسمے مظاہر قدرت کے ہی نہیں بلکہ بعض صفات کے بھی ہوتے تھے۔ اور ان صفات کو بھی سیاروں سے منسوب کردیا جاتا تھا۔ مثلاً فلاں علم کی دیوی، فلاں دولت کی دیوی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر کچھ مشرک فرشتوں کے خیالی مجسمے بنا کر ان کی پوجا کرتے تھے۔ مشرکین عرب کی ایک کثیر تعداد ایسی ہی تھی جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اور لات و منات اور عزیٰ کے مجسمے بنا کر ان کی عبادت کرتے تو سمجھتے یہی تھے کہ ہم ان بتوں کی نہیں بلکہ ان فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی ارواح ان مجسموں یا بتوں سے وابستہ رہتی ہیں۔ اسی طرح قبر پرست بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہم اس قبر کے پرستار نہیں بلکہ ہماری سب نیاز مندیاں اور نذریں نیازیں تو صاحب قبر کے لئے ہیں۔ جس کی روح اس کی قبر کے ساتھ وابستہ رہتی ہے۔ فرشتوں سےا لوہیت کےمتعلق سوال:۔ ان تمام معبودوں سے چونکہ فرشتے ہی برتر مخلوق ہیں۔ لہٰذا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو شرمندہ کرنے اور انہیں حسرت دلانے کے لئے انہی سے سوال کرے گا کہ یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے؟ کیا تم نے انہیں ایسا کہا تھا کہ تمہاری عبادت کیا کریں؟ یا کچھ اس قسم کی آرزو تم نے کی تھی؟ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرشتوں کے علاوہ دوسرے معبودوں سے بھی ایسا سوال کرے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ایسا سوال تو بالتفصیل اور بالصراحت قرآن میں مذکور ہے۔